خودمختاری یانجکاری۔۔۔۔؟

اتوار 27 مارچ 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی تبدیلی تو ابھی تک نہیں آسکی البتہ تبدیلی کے زہریلے اثرات آہستہ آہستہ سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں سمیت جن سرکاری محکموں و اداروں کو بورڈ آف گورنرز کے ذریعے اختیارات دئیے، اطلاعات ہیں کہ ان اداروں اور محکموں کا سرکار سے لنک ختم کر دیا گیا ہے۔

لنک کا مطلب یہ کہ ان اداروں کے ملازمین، اہلکار اور افسران اب سرکار کے ملازم نہیں رہے۔ عمران خان ورلڈ کپ 1992 کے فائنل میچ کی طرح خیبرپختونخوا کے سرکاری ملازمین سے جو کامیاب میچ کھیلے ہیں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ عمران خان کامیاب کرکٹر کے ساتھ چالاک سیاستدان کا اعزاز بھی اب حاصل کر چکے ہیں۔ پی آئی اے نجکاری پر گلہ پھاڑ کر چیخنے اور چلانے والے عمران خان کی توجہ جب خیبرپختونخوا کے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جانب مبذول کرائی گئی تو عمران خان کامیاب نہیں ایک چالاک سیاستدان کی طرح بات کو گھما پھرا کر نجکاری سے اختیارات پر لے آئے اور سرکاری ملازمین اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کہا کہ ہم خیبرپختونخوا میں سرکاری اداروں کی نجکاری نہیں کررہے بلکہ انہیں اختیارات دے کر خود مختار بنا رہے ہیں تاکہ تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

(جاری ہے)

خیبرپختونخوا کے سادہ لوح عوام اور بے چارے غریب سرکاری ملازمین کو تو یہ نہیں پتہ تھا کہ تبدیلی میں نجکاری کو اختیارات کہتے ہیں اس لئے وہ عمران خان کی زبان سے نجکاری کی جگہ اختیارات کے الفاظ استعمال کرنے پر خاموش ہو گئے لیکن اب جب خیبرپختونخوا میں سرکاری ہسپتالوں اور دیگر اداروں کی ہونے والی نجکاری کے زہریلی اثرات آہستہ آہستہ سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اس نے ان اداروں کے ملازمین کے ساتھ عوام کی نیندیں بھی حرام کرکے ان کے ہوش اڑا دئیے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے ان سرکاری اداروں کی نجکاری سے ہزاروں غریب ملازمین کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ اسی وجہ سے جن اداروں میں بورڈ آف گورنرز بنائے گئے ہیں ان کے ملازمین پچھلے کئی ماہ سے شدید ذہنی تناؤ اور تذبذب کا شکار ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جن اداروں کو بورڈ آف گورنرز کے ذریعے اختیارات دئیے گئے ہیں ان کے ملازمین اب یتیم ہو چکے ہیں ان اداروں کے ملازمین پر اب حکومتی مراعات کا اطلاق نہیں ہوگا۔

ان کی اچھائی یا برائی کیلئے اب بورڈ آف گورنرز جو کریں گے اسی پر عملدرآمد ہوگا۔ جو لوگ کل تک یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے سرکاری ہسپتالوں سمیت کسی ادارے اور محکمے کی نجکاری نہیں کی اب ان بااختیار اداروں کی حکومتی گرفت سے آزادی اور ان کے ملازمین کی حکومتی مراعات سے محرومی ان کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔

صوبائی حکومت نے اگر کسی محکمے اور ادارے کی نجکاری نہیں کی تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن اداروں کو بورڈ آف گورنرز کے ذریعے اختیارات دئیے گئے ہیں ان اداروں کے ملازمین پر پھر حکومتی مراعات کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔۔؟ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان کی صوبائی حکومت نے خود مختاری کے نام پر سرکاری ہسپتالوں سمیت کئی اداروں کی نجکاری کر دی ہے۔

اب ایک طرف ان اداروں کے ملازمین پرائیویٹ ٹھیکیداروں کے زیر سایہ فرائض سرانجام دیتے ہوئے ذلیل و رسوا ہوتے رہیں گے تو دوسری طرف صوبے کے غریب عوام بھی ان اداروں کی خاموش نجکاری کے زہریلی اثرات سے ہر گز محفوظ نہیں رہیں گے۔ سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں کا علاج اب ایک خواب بن کر ہی رہے گا کیونکہ جو لوگ سرکاری ہسپتالوں میں نجکاری کے ذریعے سرمایہ کاری کریں گے وہ جہاں دس لگائیں گے وہاں سے 50 کمائیں گے بھی۔

جس طرح سیاستدانوں نے سیاست اور تجارت میں کوئی فرق نہیں چھوڑا ہے عین اسی طرح اب سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی کوئی فرق نہیں رہے گا۔ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے بعد اب اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ کے پی کے کے ہسپتالوں میں ان کا مفت اور فری علاج ہوگا یا ان کو کوئی طبی سہولیات سرکاری طور پر ملیں گی تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان نے خیبرپختونخوا کے وہ سرکاری ہسپتال جہاں کل تک غریبوں کو مفت طبی سہولیات ملتی تھیں کو بھی شوکت خانم جیسے ہسپتال بنانے کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔

جس طرح شوکت خانم ہسپتال میں زکوٰة فارم کے ذریعے مفت علاج ہوتا ہے اسی طرح ان سرکاری ہسپتالوں میں بھی اب وہی نظام رائج ہوگا۔ خیبرپختونخوا کے لوگ جو خط غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزاررہے ہیں وہ توپہلے ہی شوکت خانم ہسپتال میں بھی اپنا علاج نہیں کرا سکتے ۔۔؟ مانا کہ شوکت خانم ہسپتال میں زکوٰة فارم پر غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہوگا لیکن کیا خیبرپختونخوا جہاں عوام کی اکثریت ہی غریبوں کی ہے اب سرکاری ہسپتالوں میں علاج کیلئے وہ دن بھرزکوٰة فارم ہی بھرتے رہیں گے۔

۔؟ حکمرانوں کاکام عوام سے سہولیات چھیننا نہیں بلکہ سہولیات کی فراہمی کو بہتر سے بہتر بنانا ہوتا ہے۔ حکمران ہی اگر ملکی اداروں اور سرکاری ملازمین کی نیلامی شروع کر دیں تو باقی لوگ پھر کیا نہیں کریں گے۔۔؟ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے ملکی حالات اور عوام کے مسائل سے ناآشنا ممبران اسمبلی کے ذریعے ہیلتھ ریفارمز ایکٹ کی طرح بے فائدہ قانون سازی کرکے صوبے کی تباہی کیلئے نئی راہیں کھول دی ہیں۔

حکمران تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے اسمبلی سے ہیلتھ ریفارمز سمیت دیگر ایکٹ پاس کرکے کوئی بہت بڑا تیر مارا ہے لیکن اب جب آہستہ آہستہ ان ایکٹوں کے زہریلی اثرات سامنے آئیں گے تو پھر ان کو اپنے سیاہ کارناموں کا پتہ چلے گا۔ کیا خیبرپختونخوا کے غریب عوام جنہوں نے ہر دور میں کسی نہ کسی ظالم سے ٹکر لی وہ صوبائی اداروں کی اس طرح خاموش نجکاری کا کڑوا گھونٹ پی کر یہ سب کچھ برداشت کر لیں گے۔

۔؟ ایوب میڈیکل کمپلیکس کے عابد خان جدون جس نے مجھے ہمیشہ بھائیوں جیسا پیار دیا ان کی ایک بات مجھے آج بھی اچھی طرح یادہے۔ عابد خان جدون کہتے ہیں کہ غریب ظلم سہہ لیتے ہیں، حکمرانوں کے ناز نخرے بھی برداشت کر لیتے ہیں لیکن جب کوئی ان کے یا ان کے بچوں کے منہ سے نوالہ چھینتا ہے تو وہ یہ ہر گز برداشت نہیں کرتا اور اسی وجہ سے یہی غریب جن کوحکمران کچھ سمجھتے نہیں پھراپنے حق کیلئے اس طرح پاگل ہوتے ہیں کہ مرنے اور مارنے پر اتر آتے ہیں۔

یا پھر خود مرتے ہیں یا نوالہ چھیننے والوں کاکام تمام کر دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے صوبائی حکمران کیا سمجھ رہے ہیں کہ وہ غریبوں سے طبی و دیگر سہولیات چھین کر آرام و سکون سے حکمرانی کر لیں گے۔۔؟ نہیں ہر گز نہیں۔۔ اسی خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی طرح بہت آئے اور بہت گئے۔۔ ہر آنے والا جانے کیلئے آتا ہے۔ تبدیلی کے نام پر ووٹ لے کر عمران خان نے خیبرپختونخوا میں جو کارنامے سرانجام دینے شروع کر دئیے ہیں۔

اس کے مستقبل قریب میں تحریک انصاف کیلئے انتہائی تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔ خیبرپختونخوا کوئی امریکہ نہیں کہ عمران خان سرکاری ہسپتالوں کو جدید سہولیات کی قمیض پہنا کر تبدیلی لے آئیں گے۔ یہ دہشتگردی ، غربت و افلاس سے متاثرہ ملک کا وہ واحداوربدقسمت صوبہ اور کونا ہے کہ جہاں کے عوام روٹی کے ایک ایک نوالے اور ڈسپرین کی ایک ایک گولی کیلئے بھی ترس اور تڑپ رہے ہیں۔ ایسے میں یہاں کے غریب عوام کو بنیادی سہولیات اور غریب ملازمین کو حکومتی مراعات سے محروم کرنا کسی ظلم سے کم نہیں۔ صوبائی حکومت کو اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہیے ورنہ وقت بڑی تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکل رہاہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :