حدود ترمیمی بل پرا تفاق رائے نہ ہوا تب بھی اسے پاس کرائیں گے،صدرمشرف، دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کیلئے ہے،اب کوئی جرنیل اقتدارپر قبضہ نہیں کرسکتا،دنیا کو دہشت گردی کے خا تمے کے حوالے سے ہم سے سیکھنے کی ضرورت ہے،جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں خطاب

جمعہ 22 ستمبر 2006 02:45

صدر جنرل مشرف جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں‌ خطاب کر رہے ہیں۔
صدر جنرل مشرف جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں‌ خطاب کر رہے ہیں۔
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22ستمبر۔2006ء) صدرجنرل پرویز مشرف نے واضح کیا ہے کہ اگر حدود آرڈیننس ترمیمی بل پر اتفاق رائے نہ ہوا تب بھی اسے وہ پاس کرائیں چاہے اس پرانہیں مخالفت ہی کا کیوں نہ سامنا کرنا پڑے۔ مسائل کے حل کیلئے مجھے اورمن موہن سنگھ کوزیادہ ملناچاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کیلئے ہے اب کوئی فوجی جرنیل اقتدار پرقبضہ نہیں کرسکتا۔

جمعہ کو جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب اوران کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے صدر نے کہا کہ میرے اقتدار میں آنے کے وقت پاکستان تمام شعبوں میں ناکام ریاست بن چکا تھا۔ معیشت تباہ ہوچکی تھی اوراب تکنیکی طورپر ناکام ریاست قرار دیئے گئے تھے۔ پاکستان کا جہاز گہرے سمندروں میں ڈوب رہا تھا اوراس کی کوئی سمت نہیں تھی۔

(جاری ہے)

ہم نے اقتدار میں آ کر معیشت کو سنبھالا دیا جو کہ اب مستحکم ہوچکی ہے اب ہم انسانی ترقی کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔

ریونیو کی وصولی بڑھائی اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے فوج استعمال کی ورنہ لوگ ٹیکس دینے کی بجائے ہر چھ ماہ بعد سڑکوں پر آجاتے تھے۔ تعلیم اورصحت کیلئے 44 گنا بجٹ بڑھایا حکومتی اخراجات کم کئے،خسارے میں چلنے والے تمام اداروں اور کارپوریشنوں سربراہ تبدیل کئے،اصلاحات لائے اوراب یہ منافع میں ہیں۔ تین سال تک دفاعی بجٹ منجمد رکھا مگراپنی سیکورٹی سے غافل نہیں ہوئے۔

قرضوں کا بوجھ کم کیا اپنی برآمدات اورغیرملکی سرمایہ کاری بڑھائی۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات میں اضافہ ہوا جو کہ پانچ سالوں میں پانچ سو فیصد بڑھی ہیں۔ جی ڈی پی سات فیصد ہو گئی ہے،فی کس آمدنی بڑھی،کریڈٹ ریٹنگ بہترہوئی،بڑے منصوبے شروع کئے،ریلوے سڑکوں کا انفراسٹرکچر بہتر کیا،نئی بندرگاہ بن رہی ہے،آبی ذخائر تعمیر کر رہے ہیں،غربت کے خاتمے کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔

اگر ریاست صحیح کام کرے اور لوگوں کو فائدہ نہ ہو تو پھر ترقی کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان میں بے روزگاری اور غربت تینتیس فیصد تھی ہم نے اس کی طرف توجہ دی۔موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد چار کروڑ ہوگئی ہے۔ دو ہزار دیہاتوں اورشہروں کو انٹرنیٹ سہولت دی،پانچ سالوں میں غربت چونتیس فیصد سے کم ہو کر 24.5فیصد ہوگئی ہے ہم اسے پندرہ فیصد تک لائیں گے۔

تعلیمی اصلاحات لائی جا رہی ہیں تاکہ شرح خواندگی بہتر ہو جو کہ اس وقت 53فیصد ہے۔ پرائمری سکینڈری اورا علی تعلیم کیلئے فنڈز بڑھائے گئے ہیں ۔ 9نئی یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گی ۔ پی ایچ ڈی طلباء کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔ تکنیکی تعلیم وزارت تعلیم سے لیکر اس کیلئے الگ قومی کمیشن قائم کر دیا ہے۔ ہر سطح پر صحت کا شعبہ بہتربنایاجارہا ہے۔

صدر نے کہا کہ وہ جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ ماضی میں حقیقی جمہوریت نہیں تھی انہوں نے سچی اورحقیقی جمہوریت متعارف کرائی۔ مقامی حکومتوں کانظام لایا گیا کیونکہ ایک انقلاب ہے اورلوگ اپنی قسمت کے خود مالک ہیں۔ خواتین جیت کرپارلیمنٹ میں آئی ہیں۔ اقلیتوں کو مخلوط طریقہ انتخاب کا حق دیاگیا۔میڈیا کوآزاد کیا اورچینل کی تعداد اب 43 ہے۔

پہلے صدر وزیراعظم اور آرمی چیف پاوربروکر تھے ہم نے چیک اینڈ بیلنس کا نظام متعارف کروایا اب آرمی چیف بھی اقتدار پر قبضہ نہیں کرسکے گا۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑھ کر کام کیا۔ طالبانائزیشن کا نظام ختم کیاجارہاہے ۔ اس کیلئے حکمت عملی بنا رکھی ہے ۔ ہم نے مستقبل میں غربت بے روگاری ختم کرنا ہے،پینے کے صاف پانی کیلئے اٹھائیس ہزار فلٹریشن پلانٹ لگائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی صفوں میں شمار ہوگا۔ایک سوال پرانہوں نے کہا کہ بھارت سے بات چیت کسی بھی دہشت گردی کی وجہ سے ختم نہیں ہونی چاہیے ۔ اس سے مذاکرات ناکام ہونگے ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ بھارت سے تمام تنازعات حل کرناچاہتے ہیں۔ من موہن کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے۔ وزارتی سطح پربات چیت جاری رہے گی اورنتیجہ خیز ہوگی۔

دونوں ملکوں کے عوام لچک اور محبت کا مظاہرہ کریں اورمجھے اورمن موہن کی حمایت کریں تاکہ ہم آگے بڑھیں۔ بعض لوگ امن نہیں چاہتے وہ انتہا پسند ہیں ۔ ایک سوال پر صدر نے کہا کہ صرف پانچ فیصد طلباء مدارس میں جاتے ہیں تمام بچے مدارس میں نہیں پڑھتے ۔ یہ پانچ فیصد بھی دیہاتوں میں رہتے ہیں اس لئے اب ہم زیادہ سکول کھو ل رہے ہیں۔ مدارس کو سٹیم لائن کر رہے ہیں اب مصدقہ دستاویز کے بغیر کوئی غیر ملکی پاکستانی مدارس میں نہیں آ سکتا۔

نئے مضامین مدارس کیلئے متعارف کرائے ہیں ان کی رجسٹریشن ہو رہی ہے۔ اب ان کے تعلیمی نظام اورنصاب پر کام ہو رہا ہے۔ صدر نے کہا کہ حدود آرڈیننس کو میں نے ہی بحث کیلئے اوپن کیا ہے تاکہ امتیازی قوانین ختم کئے جا سکیں۔اس پر اسمبلی میں بحث جاری ہے اور مجھے امید ہے کہ اکثریت اس کے حق میں ووٹ دے گی۔ مذہبی انتہاپسند اس کی مخالفت کر رہے ہیں کہ اگر یہ ختم کیاگیا تو وہ سڑکوں پر آ جائیں گے۔

لبرل انتہا پسند ہیں جو کہ کہہ رہے ہیں کہ ختم نہ کیاگیا تو وہ سڑکوں پر آ جائیں گے۔ ہم مذاکرات سے راستہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اگر نہ نکلا تو اسے پاس کرائیں گے اورپھر جو لوگ سڑکوں،گلیوں میں نکلیں گے ان کا مقابلہ کریں گے میں اس کا عادی ہوگیا ہوں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم نے دنیا کیلئے نہیں اپنے مفاد کیلئے شروع کی ہے کہ معاشرے کو 1979ء سے قبل کی طرف لے جایا جائے جو ترقی پسند جمہوری اسلامی ریاست ہو۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کیلئے ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے دنیا کو ہم سے سیکھنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ فوج میں خواتین کو لا رہے ہیں مگرانہیں ابھی انفنٹری میں نہیں لا رہے ۔