وزیراعلی کے دفتر کے باہر دھماکہ خیز مواد پھینکنانائب قاصد طفیل کا ذاتی فعل ہے تاہم اس نے یہ کام تخریب کاری یا بدنیتی سے نہیں کیا ، انکوائری کمیٹی ، ملزم نائب قاصد طفیل کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات ختم کرنے کی سفارش،اعلی حکام کی اجازت کے بغیر ظفراللہ خان کا ملزم اوردھماکہ خیز مواد کو تھانے سے لے جانے کا عمل غیر قانونی تھا ،کمیٹی

ہفتہ 16 دسمبر 2006 21:21

وزیراعلی کے دفتر کے باہر دھماکہ خیز مواد پھینکنانائب قاصد طفیل کا ذاتی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16دسمبر۔2006ء) پشاور میں وزیراعلیٰ کے دفتر کے باہر دھماکہ خیز مواد پھینکنے کے معاملے کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ وزیراعلی کے دفتر کے باہر دھماکہ خیز مواد پھینکنانائب قاصد طفیل کا ذاتی فعل ہے تاہم اس نے یہ کام تخریب کاری یا بدنیتی سے نہیں کیا اور سفارش کی ہے کہ ملزم نائب قاصد طفیل کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات اور جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل آئی بی ظفراللہ خان کے خلاف دائرایف آئی آر سے تعزیرات پاکستان کی دفعات353اور224ختم کی جائیں ۔

تاہم اس کیس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ221لگائی جاسکتی ہے ۔کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ریکارڈ اور حقائق کا جائزہ لینے کے بعدتجزیاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ کمیٹی نے نائب قاصد کی فائل کے اس واقعہ میں کردار کے حوالے سے تین پہلوؤں پرجائزہ لیا ۔

(جاری ہے)

پہلا یہ کیایہ اقدام اس کا انفرادی تھا کہ اس نے کانسٹیبل کے سامنے دن دیہاڑے دھماکہ خیز مواد پھینکا ۔

دوسرا یہ کہ کیا اس نے پولیس یا صوبائی حکومت کو بدنام کرنے کیلئے وزیراعلیٰ دفتر کے باہر کسی کی ہدایات پر یہ دھماکہ خیزمواد پھینکا ، یا وہ دھماکہ کرکے حکومتی حلقوں اور عوام میں خوف و ہراس پھیلاناچاہتا تھا۔کمیٹی نے تیسرے امکان کومکمل طورپر مسترد کردیا کیونکہ اس دھماکہ خیز مواد کے ساتھ ڈیٹو نیٹر یا فیوز نہیں تھا۔اس لیے دھماکے کاارادہ نہیں ہوسکتا۔

عوام میں خوف وہراس پھیلانے کیلئے دھماکے کے امکان کا بغور جائزہ لیا گیا اور اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ نائب قاصد طفیل نے پولیس یا صوبائی حکومت کو بدنام کرنے کیلئے ایسا کیا ۔کیونکہ یہ بات ریکارڈ پر آ چکی ہے اس نے آئی بی آفس کے پولیس گارڈ کانسٹیبل حنیف کے سامنے اس میٹریل کو چکھا تھا۔جوشخص دھماکہ خیز مواد پھینکنا چاہتا ہو وہ اس قسم کی حرکت نہیں کرسکتا۔

دوسرے یہ کہ جن حالات میں دن کے وقت یہ میٹریل پھینکا گیا ہے اور یہ کام ایک کانسٹیبل کے سامنے کیا گیا ہے تو اس کی کوئی وجہ نہیں کہ اسے بدنیتی پر مبنی اقدام سمجھا کہ وہ پولیس یا صوبائی حکومت کو بدنام کرناچاہتا تھا۔کمیٹی نے تفصیلی طور پر نائب قاصد طفیل کے انفرادی رویے کا بھی جائزہ لیا اور اس کی ذاتی ہسٹری میں یہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس کارویہ عجیب رہا ہے ۔

جس سے کمیٹی نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ نائب قاصد طفیل کی طرف سے آئی بی کے ایک افسر کی دراز سے دھماکہ خیز مواد نکالنا اسے کوئی کھانے کی چیز سمجھ کر چکھنا اور پھر دو روز بعد اسے کانسٹیبل کی موجودگی میں ایک جگہ پر پھینکنا اس کا ذاتی فعل ہے ۔اس نے کھلے عام یہ حرکت کی اورپھر بھاگنے کی کوشش بھی نہیں کی تاہم کمیٹی محسوس کرتی ہے کہ ایک کانسٹیبل نے اسے اس دھماکہ خیز مواد کے بار ے میں بتایا تھا ۔

اس کے باوجود نائب قاصد کا اسے اٹھانا ، دفتر سے باہر لے کر جانا اور اسے ایک مین ہول میں پھینکنا قانون کے تحت جرم ہے ۔تاہم نائب قاصدطفیل کے خلاف اب تک سامنے آنے والے شواہد کی بنیاد پر اس پر انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے سیکشن 7کا اطلاق نہیں ہوتا۔رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے جس دوسرے اہم معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا وہ نائب قاصد طفیل کو پولیس اسٹیشن سے آئی بی آفس لے جانا تھا۔

جبکہ اسے دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔اے ایس آئی تلا محمد طفیل کو تھانے لے گیا اور اسے تھانے کی بجائے اپنے کمرے میں رکھا اس کا یہ اقدام غیر قانونی تھا۔اور اے ایس آئی نے اسے آئی بی کے مقامی سربراہ کے حوالے کرکے سیکشن 221تعزیرات پاکستان کی خلاف ورزی کی ہے تاہم کمیٹی محسوس کرتی ہے کہ اے ایس آئی دباؤ میں آ گیا اور اس کے پاس حوصلہ نہیں تھا کہ وہ جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل آئی بی سے کہے کہ وہ اس کے سینئر ز سے منظوری لے تاہم کمیٹی نے رائے دی ہے کہ اس موقع پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا لہذا ایف آئی آر نمبر857میں دفعہ353 تعزیرات پاکستان نہیں لگتا۔

سیکشن 224بھی غلطی سے لگایا گیا ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔کمیٹی نے جس تیسرے معاملے کا تفصیلی جائزہ لیا وہ نائب قاصد طفیل کی طرف سے پھینکے گئے اور پولیس کانسٹیبل کی طرف سے اٹھائے گئے دھماکہ خیز مواد کامعاملہ تھا۔بہت سے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ برآمد کیا گیا مواد دو ٹکڑوں پرمشتمل تھا۔جن پر انگریزی اور اردو میں بارود لکھا گیا تھا یہ مواد جوائنٹ ڈائریکٹرجنرل ظفراللہ خان پولیس اسٹیشن سے ہمراہ لے گئے اور پھر دو انچ کا چھوٹا ٹکڑا پولیس کے حوالے کیا گیا۔

کمیٹی نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیوز یا ڈیٹو نیٹر کے بغیر وزیراعلیٰ کے دفتر اور آئی بی کے دفتر کے درمیان مین ہول میں پھینکنا نائب قاصد طفیل کا ذاتی فعل تھا اسے موقع پر پکڑا گیا اور مواد برآمد ہوا جو دوٹکڑوں میں تھا۔نائب قاصد طفیل کو اے ایس آئی تلا محمد کی حراست میں دیا گیا جس نے اسے لاک اپ کی بجائے رہائشی کمرے میں رکھا۔ اے ایس آئی تلا محمد نے غیرقانونی طورپر اسے ظفراللہ خان کے حوالے کیا ۔

بعدازاں پی پی او سرحد اور جے ڈی جی آئی بی میں نائب قاصد طفیل کو حراست میں دینے پر اتفاق ہوا۔ ملزم کوحوالے نہ کرنے پر پانچ دسمبر کی شام دو ایف آئی آرز درج کی گئیں جن میں سے ایک نائب قاصد طفیل کے خلاف دھماکہ خیز مواد رکھنے کے قانون کے سیکشن پانچ اور جے ڈی جی ظفراللہ خان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات201,224 اور225 کے تحت درج کی گئی۔بعد ازاں ایف آئی آر نمبر856میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن سات اور ایف آئی آر نمبر857میں تعزیرات پاکستان کی دفعات353 اور 186لگائی گئیں تاہم سیکشن 186 کا اطلاق جائز تھا۔

کمیٹی نے نتائج پیش کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پشاور میں دھماکوں کے باعث صوبائی حکام میں ایک حساس علاقے سے اس قسم کا موادملنے پر کھلبلی مچ گئی ۔جب نائب قاصد طفیل کو ایک اعلی افسراپنے ہمراہ لے گیا تو اس سے مزیدصورتحال خراب ہوئی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پیشہ وارانہ طورپر تفتیش اور تحقیقات کے بغیر اس معاملے کو اچھالا گیا کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ایف آئی آر نمبر856 سے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن سات کو ختم کیا جائے اسی طرح ایف آئی آر857 میں تعزیرات پاکستان کی دفعات353اور224کو ختم کرکے دفعہ 221لگائی جائے کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ چیف سیکرٹری سرحد ، پی پی او سرحد اور ڈی جی آئی بی کمیٹی کی اس رپورٹ میں دیئے گئے حقائق بنیاد بنا کر مزید فیصلے کرے ۔

کمیٹی کے ارکان میں جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو اسلام آباد محمد شریف ورک ، ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے اسلام آباد طارق کھوسہ ، ڈی آئی جی پولیس ہزارہ ذوالفقاراحمد چیمہ اور آئی جی آپریشنز سرحد ملک محمد سعد شامل تھے ۔

متعلقہ عنوان :