لاہو رہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم،سپریم کورٹ نے مصباح ارم کو مستقل طور پر والد کیساتھ رہنے کی اجازت دیدی،بچی کی والدہ پاکستان آکر ان سے مل سکیں لیکن اس حوالے سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو آگاہ کرنا ہو گا،سپریم کورٹ

جمعرات 18 جنوری 2007 20:29

لاہو رہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم،سپریم کورٹ نے مصباح ارم کو مستقل طور ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18جنوری۔2007ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے مصباح ارم کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مصباح ارم کو مستقل طور والد کے ساتھ پاکستان میں رہنے کی اجازت دے دی ہے۔ بچی کی والدہ پاکستان میں آ کر بچی سے مل سکے گی تاہم انہیں اس حوالے سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو تحریری طور پر آگاہ کرنا ہو گا تاکہ اس کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔

تاہم اس فیصلے کو بطور شہادت دوسرے مقدمات میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ جمعرات کے روز شام 5 بجے کے بعد جاری کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے جو کہ 29نومبر 2006ء کوجاری کیا گیا تھا کے خلاف آئین کے آرٹیکل 185(3) کے تحت دائر کی گئی تھی جس میں بچی کی والدہ نے الزام لگایا تھا کہ مصباح ارم کو اس کے والد نے زبردستی حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

حقائق کے مطابق سجاد احمد رانا نے 22 جنوری 1986ء کو لوئس نامی خاتون سے انگلینڈ میں شادی کی جس کے نتیجے میں 4 بچے پیدا ہوئے جس میں مصباح ارم بھی شامل ہے۔ مصباح ارم 16جولائی 1994ء کو پیدا ہوئی ۔ سجاد احمد رانا او ر اسکی بیوی میں شادی زیادہ دیر نہ چل سکی اور دونوں میں 18 اکتوبر 2001ء کو طلاق ہو گئی مصباح ارم نے مسلسل اپنے والد کے ساتھ پاکستان میں رہنا شروع کر دیا۔

تاہم ان کی ماں کو بچی سے ملنے کی اجازت دی گئی ہے بچی کی والدہ ہر ویک اینڈ اور چھٹیوں میں بچی سے مل سکتی تھی لیکن بعد ازاں ان کے والد 2003ء میں دوسرے بچوں اور مصباح ارم کے ساتھ پاکستان آ گئے۔ اس دوران بچی اپنی ماں سے ملنے جاتی رہی آخری بار جب مصباح ارم چھٹیاں گزارنے گئی تو ان کی ماں نے 2005ء سکاٹ لینڈ میں درخواست دائر کی اور حکم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔

جس میں بچی کے ملک سے باہر لے جانے پرپابندی لگا دی گئی تاہم پھر بھی مصباح ارم اپنے والد اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ واپس پاکستان آ گئی۔ بچی کی والدہ نے پاکستان میں عدالت سے رجوع کیا اور عدالت سے استدعا کی کہ اس کی بچی کو بازیاب کرایا جائے۔ درخواست میں اس نے ہائی کورٹ کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ اب ایک اجنبی شخص کے ساتھ رہ رہی ہے اور اس کا ایک بچہ بھی پیدا ہو چکا ہے۔

ہائی کورٹ نے درخواست قبول کرتے ہوئے بچی کو واپس بھجوانے کا حکم جاری کر دیا۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جس پر فوری طور پر ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا گیا۔ گزشتہ روز دونوں پارٹیوں کے وکلاء کے موقف سنے گئے اور دونوں پارٹیاں ایک یادگار سمجھوتے پر متفق ہو گئے ۔ جس میں جسٹس (ر) قیوم ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں جو درخواست دی گئی تھی وہ قانون کے مطابق نہیں ہے اور ہائژی کورٹ نے اس سے متعلقہ سوالات کو تشنہ رکھا ہے جس میں خاص طور پر یہ بچی کی خوشی او رفلاح و بہبود کو پیش نظر ہی نہیں رکھ اگیا۔

دوسری جانب بچی کی والدہ کی طرف سے ناہیدہ محبوب الہی ایڈووکیٹ نے کہا کہ مصباح ارم سکاٹ لینڈ کی رہائشی ہے جہاں وہ پیدا ہوئی پلی بڑھی اور تعلیم حاصل کی ہے۔ او رعدالتی حکم کے باوجود اس کے والد اسے زبردستی پاکستان لے آیا ہے اور اب اسے حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔ انصاف اور بچی کی فلاح اسی میں ہے کہ اسے واپس سکاٹ لینڈ بھجوا دیا جائے۔ عدالت کا یہ موقف تھا کہ دوسرے مقدمات کیطرح عدالت اس حوالے سے بھی بہتر فیصلہ دے سکتی ہے۔

پارٹیوں نے سمجھوتہ کرتے ہوئے درخواست نمٹانے کا کہا ہے سمجھوتے کے مطابق دونوں فریقین ایک دوسرے کے خلاف دائر کردہ تمام مقدمات واپس لے لیں گے۔ بچی کی والدہ جب چاہے پاکستان میں آ کر بچی کی والد کے خرچے پر بچوں سے ملنے آ سکتی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں اسے رجسٹرار کو تحریری طورپر آگاہ کرنا ہو گا تاکہ وہ اس کی حفاظت کا بہتر طور پر بندوبست کر سکے۔

والد سفری اخراجات ادار کرنے کا پابند ہے اور اگر اخراجات نہیں دے گا تو یہ توہین عدالت ہو گی۔ جب بھی بچی خواہش کرے گی سکاٹ لینڈ جانے کی تو وہ اس سلسلے میں آزاد ہو گی۔ والد اور اس کے بھائیوں کو اس میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ عدالت عظمیٰ نے بچی کی بہتری اور فلاح کیلئے دونوں پارٹیوں میں معاملہ نمٹا دی اہے۔ فیصلے میں سمجھوتے کی تحریری دستاویز کو ججمنٹ کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

تاہم اس فیصلے کو دوسرے فیصلوں کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ درخواست گزار اخراجات کے ہوالے سے پونڈ سٹرلنگ رجسٹرار کے پاس جمع کرائے گا اور باقاعدہ رسید حاصل کرے گا ۔ آئی جی پنجاب کو رجسٹرار سپریم کورٹ کو بچی کی والدہ کی سیکیورٹی کے حوالے سے تمام انتظامات کی رپورٹ ارسال کرے گا اور جب بچی کی والدہ پاکستان سے باہر پہنچ جائے گی تو اس کی رپورٹ بھی رجسٹرار کو ارسال کرے گا۔

اس فیصلے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے درخواست نمٹا دی ہے۔ جبکہ اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت بچوں کا مستقبل محفوظ کرنا چاہتی ہے ماں تو ماں ہوتی ہے اور ہم تمام ماؤں کی قدرت کرتے ہیں سب سے اہم مسئلہ بچی کی خوشی اور بہتری ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ ہیگ کنونشن،پروٹوکول اور خود ہاؤس آف لارڈز کے فیصلے نے بچوں کی فلاح و بہبود اور خوشی کی بات کی ہے اور اسی کو مقدم سمجھا ہے۔

عدالت کا کام قانون اور آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ عدالت سے باہر کیا ہوتا ہے اس سے عدالت کو کوئی مطلب نہیں ہے۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز مصباح ارم حوالگی کے حوالے سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران ادا کئے۔

متعلقہ عنوان :