وکلاء اپنی تحریک میں میر جعفر اور میر صادق کا کردارادا کرنے والوں کو شامل نہ ہونے دیں، جسٹس افتخارمحمد چوہدری،اختیارات کا غلط استعمال مشکلات پیدا کر دیتا ہے، چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد عدلیہ کی آزادی کو مضبوط اور محفوظ بنانے کی کوشش کی، آئین میں واضح کیا گیا کہ عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا جائے، تمام تر کوششیں ایک مہذب معاشرے کے قیام کیلئے کی ہیں، آئین اور قانون سے انحراف لاقانونیت کی طرف لے جاتا ہے، معاشرے کی ترقی کیلئے آئین کی راہ پر چلنا ضروری ہے، قانون کا فائدہ صرف بڑے اور مراعات یافتہ لوگوں کو نہیں بلکہ پسے ہوئے لوگوں کو بھی ہونا چاہیے، غیر فعال چیف جسٹس کا حیدر آباد میں وکلاء برادری سے خطاب

اتوار 15 اپریل 2007 20:51

وکلاء اپنی تحریک میں میر جعفر اور میر صادق کا کردارادا کرنے والوں کو ..
حیدر آباد، نوشہرو فیروز (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15اپریل۔2007ء) غیرفعال چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وکلاء برادری پر زوردیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کیلئے اپنی تحریک میں میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کرنے والوں کو شامل نہ ہونے دیں، میں نے تمام تر کوششیں ایک مہذب معاشرے کے قیام، عدلیہ کی آزدی کو مضبوط اور محفوظ بنانے کیلئے کیں مہذب معاشرے ہمیشہ آئین اورقانون کے تحت کام کرتے ہیں اور معاشرے کی ترقی کیلئے آئین کی راہ پر چلنا ضروری ہے، آئین اور قانون کے سامنے سب برابر ہیں اوران سے انحراف لاقانونیت کی طرف لے جاتا ہے، قانون کا فائدہ صرف بڑے اور مراعات یافتہ لوگوں کو نہیں بلکہ پسے ہوئے اور محروم طبقے کو بھی ہونا چاہیے، اختیارات کا غلط استعمال مشکلات پیدا کر دیتا ہے، چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد عدلیہ کی آزادی کو مضبوط اور محفوظ بنانے کی کوشش کی، آئین میں واضح کیا گیا کہ عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا جائے، پیشہ ور جج ہوں میری نیت صاف ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز یہاں ہائی کورٹ بار اور ڈسٹرکٹ کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام سول کورٹ کی نئی عمارت کے لان میں وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس دوران غیر فعال چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وکلاء پر زور دیا کہ وہ اپنی تحریک میں میر جعفر اور میر صادق کو شامل نہ ہونے دیں اور کہا ہے کہ معاشرے کی ترقی کیلئے آئین کی راہ پر چلنا ضروری ہے۔

اپنے خطبات کے دوران افتخار محمد چودری نے آئین، عدلیہ اورقانون کی مکمل بالادستی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قانون کا فائدہ صرف بڑے اور مراعات یافتہ لوگوں کو نہیں بلکہ پسے ہوئے لوگوں اور محروم طبقات کو بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مہذب معاشرے ہمیشہ آئین اورقانون کے تحت کام کرتے ہیں۔ افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ انہوں نے تمام تر کوششیں ایک مہذب معاشرے کے قیام کیلئے کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین اورقانون سے انحراف لاقانونیت کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ آئین ملک کا سپریم لاء سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین اورقانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اختیارات کا غلط استعمال مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔ افتخار چوہدری نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد عدلیہ کی آزادی کو مضبوط اور محفوظ بنانے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان میں واضح طور پر عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، آئین کی شق 175 میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد میں نے زیر التواء مقدمات کو نمٹانے کی کوشش کی اور سپریم کورٹ کے ازخود کارروائی کے اختیارات استعمال کئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھرسے شکایات اور درخواستوں کے انبار لگ گئے۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کے انسانی حقوق پامال کئے گئے تھے اورانہیں کہیں سے ریلیف ملنے کی امید نہیں تھی سپریم کورٹ کی صورت میں انہیں امید کی کرن نظر آئی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ عدلیہ نے بہت سے اہم مقدمات کا نوٹس لیا، عوام کو ریلیف فراہم کیا اور ان افسران کیخلاف کارروائی کے احکامات دیئے جنہوں نے اختیارات سے تجاوز کر کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔

کنونشن سے خطاب کے دوران افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ فرد واحد کی حکمرانی نے ملک کی جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی صفوں میں کسی کو بھی میر جعفر یا میر صادق بننے کی اجازت نہیں دیں گے پیشہ ور جج ہوں موجودہ صورتحال یا کسی بھی سیاسی حوالے سے بات نہیں کروں گا میری نیت صاف ہے اور میں بے قصور ہوں اللہ تعالیٰ مجھے سرخرو کرے گا ۔

انہوں نے کہا کہ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ میں عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کروں ا س لئے میں نے عوامی شکایات پر چھ ہزار سوموٹو ایکشن لئے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے جو کہ قانون اور ماتحت عدالتوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 185 میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ جو لوگ اپنی غربت یا دوسری مالی مجبوریوں کی وجہ سے انصاف کے حصول کیلئے عدالتوں سے رجوع نہیں کر سکتے تو انسانی حقوق کی بنیاد پر عدالتوں کو ایسے افراد کو انصاف فراہم کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 30 جون 2006ء تک مختلف عدالتوں میں 26 ہزار مقدامات التواء کا شکار تھے جس پر میں نے کارروائی کرتے ہوئے انہوں سماعت کے قابل بنایا اور جس میں سے دس ہزار مقدمات کو نمٹایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مقدمات کو ملتوی کرانے کی حوصلہ شکنی کی جس میں ججز اور وکلاء نے میرا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص منو بھیل کے خاندان کی بازیابی کیلئے فوری ایکشن لیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک رات میں نے نجی ٹی وی چینل پر ایک خبر دیکھی کہ حیدر آباد پولیس نے کمسن بچوں کو ہتھکڑیاں ڈال کر جیل بھیج دیا اسی رات میں نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ان بچوں کو رہا کروا کر والدین کے حوالے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح میں نے آئینی لحاظ سے پاکستان اسٹیل ملز اور گمشدہ افراد کے مقدمات کے فیصلے بھی کئے تھے۔ انہوں نے سنٹرل جیل حیدر آباد کے قیدیوں کی جانب سے سندھی ٹوپیوں کے تحائف کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کا شکر گزار ہوں اور ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ انہیں فوری طور پر سچا اور حقیقی انصاف مل سکے۔

انہوں نے کہا کہ میں موجودہ صورت حال اور کسی بھی سیاسی صورتحال کا حوالہ نہیں دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے پروفیسر غازی خان جکھرانی کے پنشن کا مقدمہ بھی میں نے نمٹایا تھا جو کہ کینسر کا مریض تھا۔ انہوں نے پاکستان بار کونسل کی کارکردگی اور وکلاء کی جدوجہد کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی عوام نے مجھے بے پناہ عزت دی ہے میں انہیں نہیں بھول سکتا۔

انہوں نے کہا کہ حیدر آباد میرا دوسرا گھر ہے میں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے حیدر آباد کی تقریب میں شرکت کرنے پر سند ھ ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس سرمد عثمان جلالی و دیگر ججوں کی شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس سے قبل تقریب سے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین علی احمد کرد، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منیر اے ملک، ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن حیدر آباد کے صدر قاضی عبدالستار ایڈووکیٹ، جنرل سیکرٹری اللہ بچایو سومرو و دیگر وکلاء نے بھی خطاب کیا۔

قبل ازیں حیدرآباد آمد کے موقع پر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور وکلاء نے جسٹس افتخار محمد چودری کا والہانہ استقبال کیا۔لوگوں نے ان کی گاڑی پر پھول نچھاور کئے۔ان کے ساتھ پولیس کی پروٹوکول گاڑی بھی تھی۔ سول کورٹ کے احاطے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے اور عام گاڑیوں کا داخلہ ممنوع قراردیا گیا۔ سول کورٹ کی اس بلڈنگکا افتتاح انہوں نے گزشتہ سال جنوری میں بطور چیف جسٹس کیا تھا۔

یہ وہ عمارت ہے جس کا افتتاح اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چورہدری نے گذشتہ برس 28جنوری کو سرکاری پروٹوکول میں کیا تھا اور ان کے ہمراہ مسٹر جسٹس رانا بھگوان داس، مسٹر جسٹس جاوید اقبال اور مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر بھی تھے۔ ان کے استقبال کے لئے سول کورٹ بلڈنگ کے باہر استقبالیہ بینرز آ ویزاں کئے گئے تھے۔ ریں اثناء سکھر سے حیدر آباد جاتے ہوئے راستے میں مورو کے مقام پر مختصر قیام کے دوران نوشہرو فیروز کے معروف وکلاء شعبان زرداری، میر نواز کلہوڑو، محبوب علی، محمد سلیمان اور صدر الدین احسن کی جانب سے چائے کی دعوت میں شرکت کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ وہ سندھ کے عوام اور وکلاء کی محبتیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

انہوں نے وکلاء اورجج صاحبان سے کہا کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنا کام جاری رکھیں اور اپنے فرائض ادا کریں۔ مورو پہنچنے پر غیر فعال چیف جسٹس کا وکلاء اور دیگر لوگوں نے شاندار استقبال کیا اس دوران جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سندھ کے وکلاء اور عوام کی جانب سے شاندار استقبال کرنے اوران کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا ۔ مورو میں مختصر قیام کے بعد وہ حیدر آباد روانہ ہوگئے حیدر آباد پہنچنے پر غیر فعال چیف جسٹس کا سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور وکلاء نے والہانہ استقبال کیا اور ان کی گاڑی پر پھول نچھاور کئے۔

متعلقہ عنوان :