آمرانہ نظام حکومت کا تصوراب ختم ہوچکاہے۔ چیف جسٹس۔۔ جوقومیں تاریخ سےسبق نہیں سیکھتیں وہ تباہ ہوجاتی ہیں، انتظامیہ بنیادی حقوق کیخلاف قانون سازی نہیں کرسکتی‘ایمرجنسی کےدوران بھی بنیادی انسانی حقوق معطل نہیں کئے جاسکتے۔ وڈیرہ‘جاگیرداراور بیوروکریٹس سمیت کوئی بھی قانون سےبالاترنہیں‘ عدالت عظمیٰ اورعدالت عالیہ کو بنیادی انسانی حقوق کے نفاذکی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘آزاد عدلیہ کی آئین کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ ازخود نوٹس کے ذریعےغریب اور لاچار لوگوں کوان کے گھروں میں انصاف فراہم کیا‘ زیر التواء انسانی حقوق سے متعلق 75فیصد مقدمات نمٹائے،افتخارچوہدری کا لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب

اتوار 6 مئی 2007 12:07

آمرانہ نظام حکومت کا تصوراب ختم ہوچکاہے۔ چیف جسٹس۔۔ جوقومیں تاریخ ..
لاہور(اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار06 مئی2007) چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آمرانہ نظام حکومت کا تصور اب ختم ہوچکا ہے ‘ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں وہ تباہ ہوجاتی ہیں‘ وڈیرہ‘ جاگیر دار اور بیوروکریٹس سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں‘ بنیادی حقوق اور آزادی لازم و ملزوم ہیں‘ انتظامیہ بنیادی حقوق کیخلاف قانون سازی نہیں کرسکتی‘ ہم قانون کو سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرنا جانتے ہیں‘ ہنگامی حالت میں بھی بنیادی انسانی حقوق کو معطل نہیں کیا جاسکتا‘ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کو بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ آزاد عدلیہ کی آئین کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے‘ از خود نوٹس کے ذریعے غریب اور لاچار لوگوں کو ان کے گھروں میں انصاف فراہم کیا‘ اس ملک میں دو طرح کے طبقے ہیں ایک جو اپنے آپ کو آئین سے بالاتر سمجھتا ہے اور دوسرا آئین سے ناوقف ہے‘ چیف جسٹس کا چارج سنبھالنے کے بعد زیر التواء انسانی حقوق سے متعلق 75فیصد مقدمات نمٹا دیئے گئے‘ اسلام آباد سے لاہور تک والہانہ استقبال پر عوام ‘ صحافیوں اور وکلاء کا شکر گزار ہوں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس نے اتوار کے روز یہاں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کسی بھی مہذب معاشرے کی تشکیل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ قومیں اور ریاستیں جو آئین کی بالادستی ‘ قانون کی حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کے بجائے آمرانہ نظام حکومت پر قائم ہوں جلد تباہ ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق اور آزادی لازم و ملزوم ہیں۔ قانون سب کے لئے برابر ہے خواہ کوئی امیر ہے یا غریب۔ ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ اس کی رسائی قانون تک ہو۔ ایک ریڑھی والے کو بھی پتہ ہونا چاہئے کہ اس کے کیا حقوق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آمرانہ نظام حکومت کا تصور اب ختم ہوچکا ہے یہ سب تاریخ کے ایک کڑوے باب ہیں جو قومیں تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتیں اور انہی غلطیوں کو دہراتی ہیں انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین میں بنیادی انسانی حقوق کو مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق تمام پاکستانی شہریوں کو حاصل ہیں۔ آئین میں تمام بنیادی انسانی حقوق جنہیں تحفظ فراہم کیا گیا ہے اس کی ایک تفصیلی فہرست موجود ہے۔ اس کے علاوہ حکمت عملی کے اصول اور آئین کے آرٹیکل 3 اور 4 میں بھی بنیادی انسانی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے سپریم کورٹ نے بھی انہیں بنیادی انسانی حقوق جو کہ آئین کے کئی ابواب پر مشتمل ہیں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق اور آزادی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

آئین میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیارات اور اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندے کے ذریعے استعمال کریگی۔ جس میں جمہوریت‘ آزادی‘ مساوات‘ رواداری‘ عدل کے اصولوں پر پوری طرح عمل کیا جائے گا اور مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے ذریعے ترتیب دے سکیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مملکت میں قلیتیں آزادی سے اپنے مذہب پر قائم رہ سکیں اور ان کے بھی بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا جس میں عدلیہ کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 3 میں مخصوص بنیادی انسانی حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے اس آرٹیکل کے تحت مملکت کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ ہر قسم کے استحصال کے خاتمے اور بنیادی انسانی حقوق کی بتدریج فراہمی کو یقینی بنائے جبکہ اس آرٹیکل میں کسی ایک گروپ کے کسی دوسرے گروپ کے خلاف تحقیقات فراہم کئے گئے ہیں اسی طرح آئین کے آرٹیکل 4 کے مطابق ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل تین اور چار بنیادی انسانی حقوق سے متعلقہ باب میں شامل نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اس باب میں شامل تمام حدود وقیود سے آزاد ہیں حتیٰ کہ ان بنیادی حقوق کو ہنگامی حالت میں بھی معطل نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل چار امریکی اصول رول آف لاء کے مساوی قرار دیا جاسکتا ہے۔ آرٹیکل چار ریاست پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی کو قائم کرے یہی وجہ ہے کہ عدالتیں بھی اس عمل کی پابند ہوتی ہیں کہ وہ انتظامیہ یا مقننہ کی طرف سے قانون کی حکمرانی کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدام کو روکے یہ عدالتوں کا اختیار ہے انہوں نے کہا کہ آئین میں بنیادی انسانی حقوق کو اہم ترین حیثیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ نہ تو انتظامیہ ایسا فعل سرانجام دے سکتی ہے اور نہ مقننہ کوئی ایسی قانون سازی کرسکتی ہے جو ان بنیادی حقوق سے متصادم ہو۔

انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ایسے انتظامی عمل اور قانون سازی کو کالعدم قرار دے سکے آئین میں اعلیٰ عدلیہ کو یہ اختیار عدالتی نظر ثانی کے اصول کے تحت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے آئین کے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق باب میں بیان کیا گیا ہے کہ مفہوم بنیادی انسانی حقوق سے متعلق بہت بین الاقوامی دستاویزات ہیں جنکو سٹڈی کرکے اس کے بعد ان بنیادی حقوق پر قانون لاگو کیاجاسکتا ہے۔

ان میں بہت سارے ایسے بنیادی حقوق ہیں جن میں مساوات‘ آزادی‘ تقریر کی آزادی دی یہ قرآن و سنت سے لئے گئے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق جنہیں آئینی تحفظ حاصل ہے ان میں زندگی اور آزادی کا حق‘ گرفتاری اور نظر بندی سے تحفظ‘ 24 گھنٹے کے دورانعدالت کے سامنے پیش کئے جانیکا حق اپنی پسند کے کسی قانون پیشہ سے منسلک شخص سے مشورہ کرنے اور اس کے ذریعے صفائی پیش کرنے سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان اصولوں اور قانون کے تحت ملک میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ سپریم کورٹ نے اپنے لازوال فیصلوں کے ذریعے ان بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کے اصولوں کو مزید وسعت عطا کی ہے۔ آئین کے تحت عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کو بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت آئین کے حصہ دوم کے باب اول میں تجویز کردہ حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کیلئے عدالت عالیہ کو اختیار سماعت دیا گیا ہے اسی طرح سپریم کورٹ کو بھی آرٹیکل 184 ذیلی آرٹیکل 3 کے تحت بھی وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جس میں ایسے بنیادی حقوق کی نفی کی جارہی ہو جو کہ ایک معاشرے کیلئے ضروری ہے اور جس کا نفاذ ضروری ہوگیا ہو۔

عدالت عظمیٰ نے بنیادی حقوق کے نفاذ اور فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے خاطر خواہ جدوجہد کی ہے مزید یہ کہ عدالت عظمیٰ کو اپنے اس مقصد میں کامیاب کروانے کی غرض سے آئین نے عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی کے واضہ اصول فراہم کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلا شبہ ایک آزاد عدلیہ ہی آئین کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ کو بنیادی انسانی حقوق کے سلسلہ میں عوامی اہمیت کے سوال پر از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے اور اس سلسلہ میں عدالت عظمیٰ نے ہمیشہ کوشش کی ہے اور اس عمل کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے عوامی شکایات اور درخواستوں پر قانونی کارروائی کی ہے جسے عوام نے سراہا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس موصول ہونے والی لاتعداد درخواستوں اور خطوط پر از خود کارروائی کی ہے۔ عدالت میں کام کی زیادتی بھی ہمیں انسانی حقوق کے مقدمات کو نمٹانے میں رکاوٹ نہ بن سکی کیونکہ یہ کسی بھی ایسے مجبور اور لاچار شخص پر انصاف کے دروازے بند نہیں کرسکتے جو عمومی چارہ جوئی کرنے کے بعد بھی انصاف حاصل نہ کرسکا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے سماعت کے تحت لاتعداد مقدمات اور شکایات زیر غور لائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال کے تیسرے ماہ میں اس قسم کی جو درخواستیں تھیں یہ 30جون 2005ء سے جب سے میں نے بطور چیف جسٹس چارج سنبھالا ہے ان کی تعداد بارہ ہزار ہوچکی ہے اور اس دوران ہم نے چھ ہزار مقدمات کا فیصلہ کرکے غریب اور لاچار لوگوں کو ان کے گھروں میں انصاف فراہم کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے معاشرے میں ونی اور سوارہ جیسی غلط رسومات کے خلاف کارروائی کی قانون کی خلاف ورزی اور طاقت کے ناجائز استعمال کے خلاف مناسب احکامات جاری کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں دو طرح کے طبقے ہیں ایک طبقہ وہ ہے جو اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے اور دوسرا وہ ہے جو قانون سے واقف ہی نہیں ہے۔ ایسے مقدمات میں ہمارے پاس پیش ہوئے ہیں ان لوگوں کا محاسبہ کیا گیا جو کہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے تھے۔

ہم نے ان کے خلاف نہ صرف کارروائی کی بلکہ بہت سے معاملات میں ہم نے ان مقدمات میں غریبوں کی مدد بھی کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کسی فرد یا افراد یا گروپ کے خلاف ناجائز حراست پر کارروائی کی گئی اس سلسلہ میں غریب نادار اور غیر محفوظ افراد خصوصاً عورتوں‘ بچوں ‘ اقلیتوں اور محنت کشوں کو اہمیت دی انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ماحولیاتی آلودگی کے سلسلہ میں شکایات پر کارروائی کی جس میں نیو مری پراجیکٹ‘ مارگلہ ہل پر بننے والے ہوٹل بھی شامل ہیں۔

پرائیویٹائزیشن سکیم کے خلاف شکایت پر بھی کارروائی کی گئی اس طرح پولیس کے پیٹرول پمپ اور دیگر جائیدادوں پر ناجائز قبضے کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اسی طرح عام لوگوں کو غیر قانونی حراست میں رکھنے پر کارروائی کے علاوہ ریٹائرڈ ملازمین اور بیوہ عورتوں کو بروقت پنشن کی فراہمی کے حوالے سے بھی کارروائی کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چھ ہزار مقدمات ان مقدمات کے علاوہ ہیں جو کہ ہم نے ایپلٹ پر دیگر رفقاء کی مدد سے نمٹائے ۔انہوں نے کہا کہ جب سے میں نے چارج سنبھالا ہے اب تک 75 فیصد مقدمات جو زیر التواء تھے ان کا فیصلہ کیا گیا ہے۔