مشرف حکومت امریکہ کی ضرورت ہے، تعاون کا جاری رہنا ضروری ہے، ڈیموکریٹ اراکین،جمہوریت کا مطلب عام آدمی کے حقوق کا تحفظ ہے، مشرف حکومت کو ہٹایا گیا تو ممکن ہے کوئی ایسا گروہ زمام اقتدار سنبھال لے جو امریکی پالیسی کیلئے مفید ثابت نہ ہو،حکومت پاکستان کی مشکلات میں سے ایک وجہ عراق سے متعلق امریکی پالیسی بھی ہے، صدارتی دوڑ میں شامل اراکین کی ٹی وی پر براہ راست بحث، تمام امیدوار اسامہ کیخلاف کارروائی کے طریقہ کار پر تقسیم نظر آئے

پیر 4 جون 2007 12:21

مشرف حکومت امریکہ کی ضرورت ہے، تعاون کا جاری رہنا ضروری ہے، ڈیموکریٹ ..
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4جون۔2007ء) امریکی عہدہ صدارت کیلئے دوڑ میں شامل ڈیموکریٹ اراکین نے کہا ہے کہ مشرف حکومت امریکہ کی ضرورت ہے جس کے لئے تعاون کا جاری رہنا ضروری ہے، جمہوریت کا مطلب عام آدمی کے حقوق کا تحفظ ہے، اگر مشرف حکومت کو ہٹایا گیا تو ممکن ہے کوئی ایسا گروہ زمام اقتدار سنبھال لے جو امریکی پالیسیوں کیلئے مفید ثابت نہ ہو، حکومت پاکستان کو درپیش موجودہ مسائل کی وجوہات میں سے ایک عراق سے متعلق امریکی پالیسی بھی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق آئندہ برس ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کیلئے دوڑ میں شامل ڈیموکریٹ اراکین ہیلری کلنٹن، سینیٹر جان ایڈورڈز اور بارک اوبامہ نے ٹی وی پر براہ راست بحث کے دوران امریکی خارجہ پالیسی کی از سر نو تشکیل ایران اور پاکستان کے حوالے سے سفارتکاری کے ذرائع کو استعمال کرنے پر بھی زور دیا۔

(جاری ہے)

بحث کے دوران ایک ووٹر کے اس سوال پر کہ پاکستان میں جمہوریت اور جنرل مشرف کے حوالے سے ڈیموکریٹ کیا پالیسی اپنائیں گے، نارتھ کیرولینا کے سینیٹر جان ایڈورڈز نے کہا کہ ان کے لیے جمہوریت کا مطلب عام آدمی کے حقوق کا تحفظ ہے لیکن اگر آج جنرل مشرف کو ہٹا دیا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ پاکستان میں ابھرنے والی اسلامی شدت پسندی کی وجہ سے کوئی ایسا گروہ اقتدار سنبھال لے جو امریکی پالیسیوں کے لیے مفید ثابت نہ ہو۔

الینوائے کے سینیٹر بارک اوبامہ نے کہا کہ کہ مشرف حکومت کمزور ہو رہی ہے اور اس کی کمزوری کی ایک اہم وجہ عراق میں امریکی پالیسی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں پیدا ہونے والے امریکہ مخالف جذبات حکومت کو کمزور کرنے کی اہم وجہ بنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صدر مشرف کے لیے امریکہ کے اتحادی کا کردار ادا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ ایک قابض فوج ہے تو اس کے نتیجے میں ہمیں پاکستان میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،۔

سینیٹر ہیلری کلنٹن نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ پاکستان میں کیا چل رہا ہے اور چیف جسٹس کو ہٹانے کا معاملہ بھی ان کی نظر میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود تناوٴ کے خاتمے کے لیے صدارتی نمائندہ بھیجنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دورے کے بعد انہوں نے حکومت کو ایک رپورٹ بھی دی تھی لیکن ان کی سفارشات پر غور نہیں کیا گیا۔

اس بحث کے دوران میزبان نے تمام ڈیموکریٹ امیدواروں سے سوال کیا کہ اگر انہیں اسامہ کی پاکستان میں موجودگی کی یقینی اطلاع ملے اور ان کے پاس صرف بیس منٹ کا وقت ہو اور حملے کے نتیجے میں معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ بھی ہو تو ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔اس سوال کے جواب میں بارک اوبامہ نے کہا کہ وہ اسامہ کو ایک فوجی ہدف سمجھتے ہوئے فوراً حملہ کر دیں گے تاہم ڈینس ککنیچ کا کہنا تھا کہ’بطور صدرِ امریکہ ہمیں قتل کی پالیسی نہیں اپنانی چاہیے کیونکہ اگر ہم آج یہ کریں گے تو کل کوئی ہمارے گھر پر بھی حملہ کر سکتا ہے،۔

انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن کو گرفتار کر کے بین الاقوامی عدالت میں ان پر مقدمہ چلانا چاہیے۔اسامہ کے بارے میں سوال کے حوالے سے دلچسپ بات یہ رہی کہ جہاں ایک کے سوا تمام ممکنہ امیدوار اسامہ بن لادن کے خلاف فوری ایکشن پر متفق نطر آئے وہیں کسی نے بھی اس امر کا ذکر نہیں کیا کہ آیا وہ ایک خود مختار ملک کی حدود میں کارروائی سے قبل اس ملک سے اجازت حاصل کریں گے یا نہیں۔یاد رہے کہ پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف با رہا یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکی فوج کو پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔