بلوچستان میں‌ہزاروں افراد تاحال سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاک فوج کی جانب سے امدادی کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز، دو ہیلی کاپٹر اور فوکر طیارہ تربت پہنچ گئے

جمعرات 28 جون 2007 12:02

بلوچستان میں‌ہزاروں افراد تاحال سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پاک ..
کراچی (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار28 جون 2007) بلوچستان اور سندھ میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے تین روز کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بہتر ہوگئی ہے جبکہ سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں۔تربت میں‌پھنسے ہوئے ہزاروں افراد کو نکالنے کے لئے پاک فوج نے امدادی کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل وحید ارشد کا کہناہے کہ پاک فوج کے نو ہیلی کاپٹر متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں میں مصروف ہیں جبکہ پاک بحریہ کے دو ہیلی کاپٹر اور ایک فوکر طیارہ تربت میں اترنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔

فضائیہ اور بری فوج کا ایک سی ون تھرٹی طیارہ امدادی سامان لیکر کراچی پہنچ رہا ہے جو بعد میں گوادر اور تربت جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ پاک فوج کے دس ہیلی کاپٹر امدادی سامان لیکر ملتان اور کوئٹہ میں تیار کھڑے ہیں۔

(جاری ہے)

موسم بہتر ہوتے ہی سیلاب زدہ علاقوں میں روانہ ہو جائیں گے۔ بارش اور سیلاب سے بلوچستان کے علاقے تربت، بولان، پسنی اور دیگر علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں۔

جبکہ تاحال انتظامیہ کی طرف سے امداد متاثرہ علاقوں میں نہیں‌پہنچ سکی ہےجس کے باعث عوام کو انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ شدید بارشوں کے بعد سیلاب سے بلوچستا ن کے سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ تربت اور گرد و نواح میں مسلسل بارشوں کے باعث سوراب ڈیم، کچکول ڈیم، کیچ ڈیم اور کریکور ڈیم کے حفاظتی پشتے ٹوٹنے سے متعدد علاقے زیر آب آگئے ہیں۔

جبکہ میرانی ڈیم میں بھی پانی کی سطح خطرناک حد سے اوپر چلی گئی ہے اور پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس سے ڈیم کوشدید خطرہ لاحق ہے۔ تربت شہر میں ڈیڑہ فٹ تک پانی جمع ہے جبکہ سینکڑوں مکانات منہدم ہوگئے ہیں۔ تر بت کا ملک بھر سے زمینی و مو اصلاتی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ تربت کے گرد نواح کے بعض علاقوں میں پانچ پانچ فٹ پانی کھڑا ہے۔

مقامی افراد کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے اب تک متاثرہ لوگوں کو کو ئی امداد نہیں پہنچائی گئی ہے۔ ادھر پٹھانی کور کے علاقے میں درختوں پر پناہ لے ہوئے افراد کو تاحال امداد نہیں‌پہنچ سکی ہے جس کی وجہ سے وہ بھوکے پیاسے درختوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مسلسل بارش اور ڈیموں کے ٹوٹنے سے ریسرچ کالونی، سور بندر، نودیز ، کلاتک، ناصر آباد، تربت، تحصیل دشت، بلیدہ اور دیگر کئی علاقے زیر آب آگئے ۔

ان علاقوں کے مکینوں نےمسجد، اسپتالوں ، اسکولوں اور درختوں پر پناہ لی جبکہ سینکڑوں مکانات منہدم ہوگئے ۔ بلیدہ کے علاقے میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد جاں بحق ہوگئے ہیں ۔ ہرنائی میں‌مکان کی چھت گرنے سے دو خواتین جاں بحق اور چار افراد زخمی ہوگئے۔ پسنی میں بھی کئی دیہات زیر آب آگئے ہیں۔ جبکہ خضدار میں سیلاب سے گنداواہ اور اس کے گر د ونواح میں متعد د دیہات زیر آب آگئے ہیں اور سینکڑوں مکانات منہد م ہوگئے۔

زہری کے علاقے میں بھی زرد ڈیم میں شگاف پڑنے کی وسیع آبادی متاثر ہوئی۔ زیارت ،ہر نائی، سنجاوی اور سبی میں بارش کے پانی سے درہ بو لان بند ہو گیا ہے ۔ ہنگول ندی میں طغیانی کے باعث ہنگولاج مندر میں پھنسے ہندو یاتریوں کو پانچ روز گزرنے کے باوجود نہیں‌نکالا جا سکا ہے، ان افرادکا تعلق سندھ کے ضلع بدین کے علاقے ماتلی سے ہے۔ گذشتہ تین روز میں سندھ میں مجموعی طور انتیس جبکہ بلوچستان میں تینتالیس افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔

کوئٹہ میں محکمہ موسمیات کے حکام نے پیش گو ئی کی ہے کہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں تیس جون تک وقفہ ،وقفہ سے بارش ہونے کا خدشہ ہے ۔ ادھر سندھ میں کراچی ، حیدرآباد ، بدین، ٹھٹھہ اور دادوسمیت کئی شہروں میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور محکمہ موسمیات نے آئندہ چوبیس گھنٹوں‌کے دوران مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ ساحلی علاقوں کیٹی بندر، کھاروچھان، جاتی اور شاہ بندر میں طوفان نے تباہی مچادی ہے۔ضلع ٹھٹھہ سے تعلق رکھنے والے درجنوں ماہی گیر سمندر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ طوفان کے باعث دو ہزار سے زائد کچے مکانات منہدم ہوگئے ہیں۔