اسلام آباد میں 7 مساجد کو منہدم کئے جانے سے شروع ہونیوالی لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طلبہ کی تحریک کے نشیب و فراز، چلڈرن لائبریری پر قبضہ‘ شرعی عدالت کے قیام کا اعلان‘ فحاشی و عریانی کیخلاف اعلان جہاد‘ آنٹی شمیم اور بیٹیوں کا اغواء‘ پولیس اہلکاروں کی دو دفعہ یرغمالی و رہائی‘ شجاعت اور مسجد انتظامیہ میں 2 بار مذاکرات اور ڈیڈ لاک‘ مساج سینٹر پر دھاوا اور بالآخر 3جولائی کے ناخوشگوار واقعے تک طویل کشمکش

بدھ 4 جولائی 2007 14:54

اسلام آباد میں 7 مساجد کو منہدم کئے جانے سے شروع ہونیوالی لال مسجد اور ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار04 جولائی 2007) اسلام آباد میں وفاقی ترقیاتی ادارے کی جانب سے 7 مساجد کے انہدام کیخلاف جامعہ حفصہ کے طلباء و طالبات کی جانب سے احتجاجاً 22 فروری کو چلڈرن لائبریری پر قبضے اور بعدازاں منہدم مساجد کی تعمیر کے لئے تحریک کو ملک میں نفاذ شریعت کی جانب موڑنے اور ملک سے مبینہ فحاشی اور عریانی کے خاتمے کے مطالبات تک کے سفر اور بالآخر 3 جولائی کو طلبہ اور رینجرز میں تصادم کے باعث کئی انسانی جانوں کے ضیاع تک کے ناخوشگوار سفر میں کئی نشیب و فراز سامنے آئے۔

لال مسجد کا بحران رواں سال 22 فروری کو اس وقت شروع ہوا جب جامعہح فصہ کی طالبات نے اسلام آباد میں سات مساجد منہدم کئے جانے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بچوں کی لائبریری پر قبضہ کر لیا۔

(جاری ہے)

13 فروری کو حکام لائبریری کا قبضہ ختم کرانے کے لئے منہدم کی گئی ایک مسجد دوبارہ تعمیر کرانے پر رضامند ہو گئے تاہم 27 مارچ کو جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کے طلباء ایک گھر میں گھس گئے اور بدکاری کے الزام پر خاتون آنٹی شمیم اس کی بہو اور چھ ماہ کی بچی کو یرغمال بنا لیا۔

بعدازاں انہیں تائب ہونے پر رہا کر دیا۔ 28 مارچ کو مدرسے کے طلباء نے تین پولیس اہلکاروں کو اغواء کر لیا جسے بعدازاں چھوڑ دیا گیا۔ 29 مارچ کو طلباء نے سی ڈی اور ویڈیو کی دکانوں کے مالکان کوئی نیا کاروبار شروع کرے ورنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہونے کی تنبیہہ کی۔ 6اپریل کو لال مسجد انتظامیہ نے شریعت عدالت قائم کرنے کا اعلان کیا اور دھمکی دی کہ اگر حکومت نے عدالت بند کی تو ہزاروں کی تعداد میں خودکش حملے کئے جائیں گے۔

9 اپریل کو حکومت کی جانب سے لال مسجد کی ویب سائٹ اور ریڈیو سٹیشن بند کرنے کا اعلان کیا گیا۔ 25 اپریل کو تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لئے چوہدری شجاعت اور لال مسجد انتظامیہ میں مذاکرات ہوئے تاہم کوئی اتفاق نہ ہوا۔ 18 مئی کو مدرسے کے گیارہ طلباء کی گرفتاری پر جامعہ فریدیہ کے طلباء نے چار پولیس اہلکاروں کو اغواء کر لیا۔ مذاکرات کے بعد قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

23 جون کو جامعہ فریدیہ اور جامعہ حفصہ کے طلباء نے مساج سنٹر پر دھاوا بول دیا اور سات چینی باشندوں سمیت 9 افراد کو اغواء کر لیا۔ اگلے روز تمام مغوی رہا کر دیئے گئے اور بالآخر 3جولائی کو لال مسجد انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز کے درمیان خونریز جھڑپوں نے 21 افراد کی جان لے لی جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔ جاں بحق ہونیوالوں میں 2 رینجرز اہلکار بھی شامل ہیں۔ 4 اپریل کو حکومت نے ہتھیار ڈالنے والے طلباء کے لئے عام معافی کا اعلان کیا اور کہا گیا کہ جو طلبہ رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈال دیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ تاہم ابھی تک لال مسجد انتظامیہ ہتھیار نہ ڈالنے کے مؤقف پر قائم ہے۔