بلوچستان حکومت نے بلوچستان میں سیلاب سے پیدا ہونیوالی صورتحال کے پیش نظر عالمی ڈونرز کانفرنس بلانے کا مطالبہ کردیا۔ حالیہ سیلاب سے صوبے میں80ارب روپے سے زائد کامالی نقصان اور 132ہلاکتیں ہوئیں،کانفرنس نہ بلانے کی صورت میں وفاق ہی ہمارے نقصانات کا ازالہ کریں،وزیراعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف کا متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 4 جولائی 2007 15:48

کوئٹہ(اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار04 جولائی 2007) وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام محمد یوسف نے کہا ہے کہ حالیہ سیلاب سے صوبے میں80ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے ، صدر اوروزیراعظم بلوچستان کے صورتحال کے پیش نظر عالمی ڈونرز کانفرنس طلب کریں ، کانفرنس نہ بلانے کی صورت میں وفاق ہی ہمارے نقصانات کا ازالہ کریں، اب تک 132ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر بلوچستان حکومت کے ترجمان عبدالرازق بگٹی اور دیگر صوبائی سیکرٹریز بھی موجود تھے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ اب تک132ہلاک جبکہ170کے قریب لاپتہ ہے ، میڈیاپر400افراد کی ہلاکت میں کوئی صداقت نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جھل مگسی کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں ایسا کوئی گھر نہیں بچا ہے جس میں کوئی رہ سکے۔

(جاری ہے)

اب مختلف مقامات پر لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے بڑی تعداد میں متاثرین ہونے کے باعث اشیاء کی تقسیم میں بھی انتظامیہ کو مشکلات پیش آرہی ہے ۔

جعفرآباد، نصیر آباد اور نوتال روڈ کھول دیا گیا تاکہ سندھ کے علاقوں سے ان متاثرہ مقامات پر اشیاء خورد نوش پہنچایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ کرخ اور مولا کے علاقوں میں اپ بل روڈ کے ذریعے رسائی ممکن نہیں ہوسکی لیکن محصور لوگوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سامان پہنچایا گیا ہے جھل مگسی کے قریب ایک کینال زیادہ پانی آنے کے باعث نصیرآباد اور جعفرآباد میں زیادہ پانی آچکا ہے انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں روزانہ12پروازیں جاری ہے اشیاء خورد و نوش کی کوئی کمی نہیں ایف سی کے میجر جنرل سلیم تربت میں خود ریلیف آپریشن کی نگرانی کررہا ہے انہوں نے کہا کہ نال میں42افراد ہلاک ہوئے ، آواران میں100اب تک ہیلی کاپٹر کی لیڈنگ کی جگہ موجود نہیں اس لئے میں وہاں نہیں جاسکا اسی طرح ماشکیل اور گڈانی میں بھی لینڈنگ کی کوئی جگہ نہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایف سی اور پاک فوج کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے نقصانات کشمیر اور سرحد کے زلزلے سے کم نہیں ۔ ایک رف انداز کے مطابق80ملین روپے کا نقصان ہوا وزیراعلیٰ نے اپیل کی کہ کشمیر اور سرحد کی زلزلے کی طرح بلوچستان کے لئے بھی ڈونرز کانفرنس بلائی جائے تاکہ بین الاقوامی اداروں کو بلوچستان کی صورتحال سے بہتر طور پر آگاہ کیا جاسکے ۔

انہوں نے کہا کہ اگربین الاقوامی اداروں کی جانب سے امداد نہ کی گئی تو صوبائی حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ شاید ہم اپنے پاؤں پر بھی کھڑے نہ ہوسکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر میرانی ڈیم نہ ہوتا تو گوادر اور دشت میں اتنے زیادہ نقصانات ہوتے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے انہوں نے کہا کہ پورے صوبے میں مجموعی طور پر 25لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ صوبے کے اکثر بڑی بڑی ہائی ویز کو کھول دیا گیا ہے ۔

سیکرٹری داخلہ طارق ایوب نے کہا کہ بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے رابطہ کیا ہے لیکن ان کے امداد کیلئے وفاقی حکومت اس بارے میں حکمت عملی طے کریگی۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ مرنے والوں کے لواحقین کو ضرور معاوضہ ادا کیا جائے گا لیکن اپنے وسائل کو مد نظر رکھیں گے۔