پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ بونس ہے ۔جیف لاسن۔۔بے وقوفیاں برداشت نہیں کرتا اور نہ ہی میرے پاس بہترین سے کم کسی چیز کی گنجائش ہے‘ کلچر کے فرق کی وجہ سے کچھ مسائل پیش آئیں گے‘قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ کی میڈیا سے گفتگو

منگل 17 جولائی 2007 14:02

پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ بونس ہے ۔جیف لاسن۔۔بے وقوفیاں برداشت نہیں ..
اسلام آباد ( اردوپوانئٹ اخبار تازہ ترین17 جولائی2007) پاکستان کرکٹ ٹیم کے نئے کوچ جیف لاسن نے کہا ہے کہ میں بے وقوفیاں برداشت نہیں کرتا اور نہ ہی میرے پاس بہترین سے کم کسی چیز کی گنجائش ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ میرے لئے خوشی کی بات ہے ۔ پاکستانی کھلاڑی زبردست صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کی کوچنگ میرے لیے بونس ہے۔کہ کلچر کے فرق کی وجہ سے مجھے کچھ مسائل پیش آئیں گے ۔

’ ٹونٹی ٹونٹی کے فوراً بعد ٹیم کو ٹیسٹ میچ کے لیے تیار کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ پاکستانی ٹیم میں بوب وولمر کی حیثیت ایک چچا کی سی تھی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔جیف لاسن کی پاکستان کرکٹ ٹیم کے آنجہانی کوچ باب وولمر کی جگہ تقرری ان کے کوچنگ کیرئیر کی سب سے بڑی تعیناتی ہے۔

(جاری ہے)

اپنے ٹیسٹ کیرئر میں چھیالیس ٹیسٹ کھیلنے والے جیف لاسن کو ایک باصلاحیت آوٴٹ سوئنگ بالر سمجھا جاتا تھا۔

لاسن نے اپنے ٹیسٹ کیرئر کے دوران قریباً تیس اعشاریہ چھ کی اوسط سے ایک سو اسّی وکٹیں حاصل کیں اور 1989 میں آسٹریلیا کو ایشز سیریز جتوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔یہ بین الاقوامی کرکٹ کا تجربہ ہی تھا جس نے لاسن کو سنہ 1988 سے سنہ 1992 کے دوران نیو ساوٴتھ ویلز کی قیادت کرتے ہوئے دو مرتبہ ڈومسیٹک کرکٹ ٹرافی جیتنے میں مدد دی۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جیف لاسن کا مثبت اور جارحانہ اندازِ کپتانی ہی مارک ٹیلر اور سٹیو وا جیسے کپتانوں کے لیے تربیت گاہ ثابت ہوا۔

یہ دونوں سابق آسٹریلوی کپتان لاسن کی زیرِ قیادت کھیلنے والے نیو ساوٴتھ ویلز ٹیم کے رکن تھے۔پاکستان ٹیم کی کوچنگ کی پیشکش قبول کرنے کے بعد بھی لاسن نے اخباری نمائندوں کو اپنے آہنی عزائم کی جھلک اپنے بیان میں دکھائی۔ ان کا کہنا تھا ’میں بے وقوفیاں برداشت نہیں کرتا اور نہ ہی میرے پاس بہترین سے کم کسی چیز کی گنجائش ہے‘۔گو کہ جیف لاسن کو ریٹائر ہوئے پندرہ برس ہو چکے ہیں لیکن ان کے پاس کوچنگ کا بہت محدود تجربہ ہے۔

تاہم ریٹائرمنٹ کے اس عرصے کے دوران وہ اپنے آپ کو ایک تیز طرار مبصر کے طور پر منوانے میں کامیاب رہے۔اس کی ایک مثال جیف لاسن کی جانب سے گزشتہ ایشز سیریز سے نو ماہ قبل ہی سیٹورٹ کلارک کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ وہ اس سیریز میں سب سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔اس وقت کرکٹ کے کئی ماہرین کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ کلارک یہ سیریز کھیلیں گے بھی یا نہیں، لیکن سیریز کے اختتام پرکلارک سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر کے روپ میں سامنے آئے۔

پاکستانی بورڈ کے ساتھ ان کی ملاقات جون میں ہوئی تھی ۔پاکستان کے لیے محفوظ انتخاب واٹمور ہی تھے۔ وہ نہ صرف سری لنکا کو غیرمتوقع طور پر عالمی چیمپیئن بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں بلکہ بنگلہ دیش کو، جسے سنہ انیس سو چھیانوے تک عالمی کپ مقابلے جیتنے کی کوئی امید نہیں ہو سکتی تھی، اسے ایک روزہ کرکٹ کی ایک مناسب ٹیم میں بدل چکے ہیں۔لیکن اس بار نظریں جیف لاسن پر لگی ہوئی ہیں جو واٹمور کی طرح اپنی ٹیم کو لڑانے والے کوچ ہیں۔

میڈیاسے بات کرتے ہوئے جیف لاسن کا کہنا تھا ’ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے اور اس قسم کے مواقع بہت کم ہی ملتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا ’ میں ایک مبصر کی حیثیت سے کئی پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ سفر کر چکا ہوں اور ان سے کئی مرتبہ گپ شپ کر چکا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے اایبٹ آباد میں اپنے ٹریننگ کیمپ میں بھی مجھے خوش آمدید کہا جہاں میرا جلد ہی ان سے رشتہ قائم ہو گیا اور سچ پوچھیں تو مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے۔

‘ جیف لاسن کا مزید کہنا تھا کہ ’ پاکستانی کھلاڑی زبردست صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ یہی چیز مجھے پسند ہے اور اس پر ان کی کوچنگ تو میرے لیے بونس ہے۔‘پاکستانی ٹیم کے بارے میں یہ بات سب سے زیادہ مشہور ہے کہ وہ سیماب صفت کھلاڑی ہیں جو کبھی تو شاندار فتوحات لاتے ہیں تو کبھی تباہ کن شکست سے دوچار ہو جاتے ہیں۔جیف لاسن جانتے ہیں کہ انہیں ہر روز اپنے کھلاڑیوں کے حوصلے بلند رکھنے ہیں۔

ٹیم کے شیڈول کے معمولات کو مدنظر رکھیں تو یہ کوئی آسان کام دکھائی نہیں دیتا۔پاکستانی ٹیم کا پہلا ٹورنامنٹ ستمبر کے وسط میں ہونے والا ٹونٹی ٹونٹی ہوگا اور اس کے ختم ہونے کے ایک ہفتے کے اندر ہی وہ انڈیا کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہو گی۔اس بارے میں ان کا کہنا تھا ’ ٹونٹی ٹونٹی کے فوراً بعد ٹیم کو ٹیسٹ میچ کے لیے تیار کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

ہمیں بہت کام کرنا ہوگا۔‘ اس کے علاوہ سابق کپتان انضمام الحق کی سربراہی کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں پر یہ تنقید بھی کی جاتی رہی ہے کہ وہ بہت زیادہ مذہبی ہو گئے ہیں۔ لیکن لاسن کو اس کی زیادہ پرواہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ بات ویسے ہی مشہور ہو گئی ہے۔ میرا خیال ہے اس کا تعلق کلچر سے ہے۔ ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی ایسے ہی جیسے دوسرے جوان ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر کاوٴنٹی کرکٹ بھی کھیلتے ہیں۔‘ جیف لاسن کا مزید کہنا تھا’ مجھے پتہ ہے کہ کلچر کے فرق کی وجہ سے مجھے کچھ مسائل پیش آئیں گے، لیکن میرا خیال ہے یہ اتنے زیادہ نہیں ہوں گے جتنا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں۔‘ جیف لاسن اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ پاکستانی ٹیم میں بوب وولمر کی حیثیت ایک چچا کی سی تھی۔ ’باب وولمر پاکستانی کھلاڑیوں میں بہت مقبول تھے۔ انہوں نے بہت اچھی بنیاد بنائی ہے اور باب نے جو کچھ کِیا ہے کھلاڑی اسے بہت عزت سے نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر جیف لاسن ٹیم کے ساتھ ویسے ہی تعلقات بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جیسے کہ باب وولمر کے تھے تو پھر وہ اپنے نصف اہداف کو حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو جائیں گے۔

متعلقہ عنوان :