مہمند ایجنسی میں6 گروپوں پرمشتمل تحریک طالبان نامی نئی تنظیم کا قیام

منگل 23 اکتوبر 2007 11:55

مہمند ایجنسی میں6 گروپوں پرمشتمل تحریک طالبان نامی نئی تنظیم کا قیام
لندن (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین23اکتوبر2007) قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں خفیہ طور پرسرگرم مقامی طالبان کے تقریباً چھ مختلف گروپوں نے متحد ہو کر ’تحریک طالبان‘ نامی ایک نئی تنظیم تشکیل دینے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے۔ ایک برطانوی خبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے خود کو مقامی طالبان کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو نعمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز علاقے میں سرگرم چھ گروپوں کے رہنماوٴں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں تقریباً پچیس کے قریب دینی علماء اور طالب کمانڈروں نے شرکت کی۔

انہوں نے بتایا کہ اجلاس کے دوران ایک سولہ رکنی شوریٰ تشکیل دی گئی اور تنظیم کو ’تحریکِ طالبان مہمند ایجنسی‘ کا نام دیکر عمر خالد کو امیر جبکہ مولانا گل محمد کو نائب امیر مقرر کردیا گیا۔

(جاری ہے)

امیر عمر خالد نیخبر رساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں کے دوران علاقے میں رونما ہونے والے مبینہ دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں مقامی طالبان کو ملوث کیا گیا جو سراسر بے بنیاد الزام ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ طالبان پر لگنے والے الزامات کو روکنے اور علاقے میں مشترکہ اور منظم کارروائیاں کرنے کے لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ایجنسی میں سرگرم طالبان کے تمام گروپوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد کیا جائے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مقامی انتظامیہ اور خفیہ ایجنسیاں علاقے میں غیر ملکی یا دیگر افراد کو لا کر ان سے ایسی کارروائیاں کرواتے ہیں جس سے علاقے میں طالبان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔

ان کے مطابق اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ آئندہ صرف ان غیر ملکیوں یا دیگر علاقوں سے آئے ہوئے مبینہ ’جہادیوں ، کو علاقے میں آنے کی اجازت ہوگی جن کو مقامی طالبان نے یہاں رہنے کی باقاعدہ اجازت دی ہو۔مقامی طالبان کے سربراہ عمر خالد نے پہلی مرتبہ گزشتہ دنوں ایک استانی اور دو دیگر خواتین کو مبینہ طور ’جسم فروشی‘ میں ملوث ہونے کے الزام میں قتل کیے جانے کے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا تاہم انہوں نے امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں بعض افرد کو قتل کرنے اور گیارہ اکتوبر کو چھ مقامی افراد کو ایک جنازے کے دوران مقامی لوگوں کی موجودگی میں سرعام گلا کاٹ کر ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام کے تحت لوگوں کو قتل کیے جانے پر حکومت کو خوش ہونا چاہیے کیونکہ جو کام اسے کرنا ہے وہ ہم کررہے ہیں جبکہ جن چھ افراد کوگلا کاٹ کر مارا گیا وہ مبینہ طور پر ’ چور اور ڈاکو ، تھے جنہیں’ شریعت، کے مطابق سخت ترین سزا دی گئی۔واضح رہے کہ مہمند ایجنسی میں سرگرم مبینہ طالبان نے عمر خالد ہی کی سربراہی میں لال مسجد کے خلاف حکومتی آپریشن کے بعد ردعمل کے طور پر ایجنسی میں واقع حاجی صاحب ترنگزئی کے مزار پر قبضہ کرکے اسے لال مسجد کا نام دے دیا تھا تاہم قبائلی عمائدین سے مذاکرات کے بعد انہوں نے قبضہ ختم کردیا تھا۔

مہمند ایجنسی کے طالبان نے یکم ستمبر کو بھی سکیورٹی فورسز کے انیس اہلکاروں کو اغواء کر لیا تھا جنہیں قبائلی مشران کے ساتھ ہونیوالی بات چیت کے نتیجے میں رہا کردیا گیا تھا۔