ملک بھر میں بارشوں کا سلسلہ جاری ،مزید24افراد جاں بحق متعدد زخمی و لاپتہ، ہزاروں بے گھر، لاکھوں ایکڑاراضی زیر آب فصلیں تباہ ۔بلوچستان کے کئی ،علاقوں میں زمینی رابطہ بند اشیا خوردونوش کی قلت ، تحصیل زدہ اور جعفرآباد میں ایمرجنسی نافذ ۔ بروقت حفاظتی ٹیکے نہ لگائے جانے کے سبب متعدد افرادکے جلد اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا۔ سیلاب سے بچاؤ کیلئے ریلیف ،زرعی ٹیکس سے چھوٹ اور قرضوں سے معافی دی جائے ، متاثرین کا مطالبہ

بدھ 6 اگست 2008 18:00

ملک بھر میں بارشوں کا سلسلہ جاری ،مزید24افراد جاں بحق متعدد زخمی و ..
گلگت+پشاور+راجن پور+کوئٹہ(اردوپوائنٹ اخبا ر تازہ ترین06 اگست2008 ) ملک بھر میں جاری بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں مزید24افراد جاں بحق  متعدد زخمی و لاپتہ  ہزاروں افراد بے گھر اور لاکھوں ایکڑاراضی زیر آب آگئی جس سے کھڑی فصلیں مکمل طورپر تباہ ہوگئی ہیں  بلوچستان کے کئی علاقوں میں زمینی رابطہ بند ہونے کی وجہ سے اشیا خوردونوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے تحصیل زدہ اور جعفرآباد میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی متعدد علاقوں میں بروقت حفاظتی ٹیکے نہ لگائے جانے کے سبب متعدد افرادکے جلد اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جبکہ متاترین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سیلاب سے بچاؤ کے لئے انہیں ریلیف زرعی ٹیکس سے چھوٹ اور قرضوں سے معافی دی جائے۔

اطلاعات کے مطابق شمالی علاقہ جات میں بارشوں نے تباہی مچادی گلگت میں سیلاب سے ہلاک 7افراد کی لاشیں برآمد ہوگئیں جبکہ اسکردو کی تحصیل گرفراگ میں بھی تباہ کن سیلاب سے دو سو گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے۔

(جاری ہے)

سیلاب کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے سات افراد کی لاشیں برآمد ہوگئیں۔مٹہ کے علاقے برتانہ میں سیلابی ریلے میں بہہ کر اور آسمانی بجلی گرنے سے تین افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ آٹھ مکانات اور دو مساجد کو نقصان پہنچا۔

مختلف علاقوں میں آٹھ رابطہ پل، پندرہ پن چکیاں، بجلی کے پول اور اسی جانور آبی ریلے میں بہہ گئے۔ سترہ مکانات کو جزوی نقصان پہنچا اور ہزاروں ایکڑ اراضی زیر آب آ گئی۔ راجن پو ر میں پانچ افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے جبکہ پانچ لاکھ ایکڑ اراضی زیر آب آ گئے ۔قبائلی سرداروں کی عدم دلچسپی اور انتظامیہ کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث اس سال ضلع راجن پور سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے اور چالیس ہزار ایکڑکھڑی فصل تباہ ہو گئی ہے۔

تباہ کن سیلابی ریلے سے ایک سو پچاس کلو میٹر طویل علاقہ اور چورانوے کلو میٹر نہروں کو نقصان پہنچا ہے۔داجل کینال کینال کے سیلابی ریلے سے اکثر مقامات پر لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے ہیں اور مواصلات کا نظام ختم ہو کر رہ گیا ہے۔پورے علاقے کی سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں۔ ضلع بھر میں سولہ ریلیف کیمپ لگائے گئے ہیں لیکن ان میں متاثرین کے لئے کو ئی سہولت دستیاب نہیں جبکہ راجن پور میں بجلی کا نظام مکمل طورپر درہم بر ہم ہوگیا علاقے میں اتنے بر ے پیمانے پر تباہی کے باوجود ریلیف کام سست روی کا شکار ہے جس سے مقامی افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار بیٹھے افراد کو پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے رہا ئشیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں سیلاب سے بچاؤ کے لئے انہیں ریلیف فراہم کیا جائے اور انہیں زرعی ٹیکس سے چھوٹ اور قرضوں سے معافی دی جائے۔نامناسب انتظامات اور ایڈہاک ازم کے باعث بے سروسامانی کی حالت میں ہزاروں خاندان امداد کے منتظر ہیں-،سیلابی ریلہ پنجاب کے علاقوں راجن پور اور فاضل پور سے گزر رہا ہے۔

متاثرین نے امدادی کاموں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شاہی بالا، بشیر آباد، ریگی اور دیگر علاقوں میں بروقت حفاظتی ٹیکے نہ لگائے جانے کے سبب متعدد افراد جلد اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔صوبائی حکومت کی جانب سے متاثرین کو اب تک دو ہزار سے زائد خیمے اور کمبل فراہم کئے جاچکے ہیں تاہم ریلیف کیمپوں میں مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر افراد واپس چلے گئے ہیں لاہور میں فلڈ وارننگ سینٹر کے مطابق دریائے سندھ میں تربیلا‘ کالا باغ‘ چشمہ اور گدو دریائے ستلج اور جہلم معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں۔

سیالکوٹ میں نالہ ٹیک اور بھیڑ میں پانی کی سطح مسلسل کم ہورہی ہے۔پنجاب کے علاقوں راجن پور اور فاضل پور میں سیلابی ریلے سے مزید نو بستیاں زیر آب آگئیں۔ ان علاقوں میں مقیم افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے۔ حکومت پنجاب نے سیلاب سے متاثرین کی بحالی کے لئے سولہ ریلیف اور25 میڈیکل کیمپ قائم کردیئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جمعہ کو راجن پور میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔

بلوچستان کے علاقے پسنی میں بارش کے باعث پسنی تربت شاہراہ تین روز سے بند ہے۔ شادی کور ندی میں طغیانی سے پسنی کے درجنوں دیہات کا دیگر علاقوں سے زمینی راستہ منقطع ہوگیا ہے۔ اندرون بلوچستان میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے بچہ سمیت دو افراد ہلاک تین افراد زخمی ہوگئے جبکہ کئی علاقوں میں زمینی رابطہ بند ہونے کی وجہ سے اشیا خوردونوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے تحصیل زدہ اور جعفرآباد میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔

اندرون بلوچستان کے نمائندوں کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ پانچ روز سے جاری بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی ہے بلوچستان کے پہاڑی ندی نالوں میں طغیانی اور ناڑی بینک میں اونچے درجے کا سیلاب ہے علاقے میں ہائی الرٹ کردیا گیا ہے۔ سیلابی گزرگاہوں میں آنے والی آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے اقدامات شروع کردہیے گئے ہیں ،ضلع نصیر آباد میں سرکاری اسکول سمیت پانچ دیہات زیر آب آگئے دریائے مولہ سے ساٹھ ہزار کیوسک کا سیلابی ریلہ لیوا اور ہتھیاری کے راستے قبولہ ندی میں داخل ہوگیا جبکہ ناڑی ندی سے گزرنے والا ریلہ آج شام داخل ہوجائیگا۔

جعفر آباد میں سیلاب کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر کینال میں ایمرجنسی نافذ کرکے ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی پنجگو ر میں شدید بارشوں کے باعث فصلوں کو کافی نقصان پہنچا ہے پنجگور کا ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی رابطہ منقطع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے اشیا خوردونوش اور ایندھن کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ہرنائی کا گزشتہ چارروز سے زمینی رابطہ منقطع ہے کچے مکانات مہندم ہوگئے تیار فصلوں کو نقصان پہنچا۔

حفاظتی بندات سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ،کوئٹہ،سنجاوی اور ہرنائی روڈ گزشتہ چار روز سے ٹریفک کے لئے بند ہے سڑکوں کی بندش کی وجہ سے اشیا خوردونوش کی قلت پید ا ہوگئی ہے۔بسیمہ میں چار سالہ بچہ سیلابی ریلہ میں بہہ گیا ڈیرہ مراد جمالی میں شدید بارشوں کے بعد حبس کے باعث ایک شخص ہلاک اور دس بہوش ہوگئے مستونگ کے علاقے کڈکوچہ میں طوفانی بارشوں سے متعدد گھر اور کھڑی فصلیں سیلابی ریلے میں بہہ گئی اور ٹیوب ویل ناکارہ ہوگئے۔مچھ اور کولپور میں شدید بارشوں سے مچھ ندی میں پانی آگیا جس کی وجہ سے مچھ ندی کے ٹوٹے ہوئے پل کے ساتھ بنایا گیا متبادل راستہ بہہ گیا،جس کے بہہ جانے کی وجہ سے مچھ شہر کا زمینی رابطہ ملک بھر سے منقطع ہوگیا۔