بلوچ رہنماوں کا قتل ،بلوچستان بھر میں پر تشدد واقعات ،9افراد ہلاک ، متعدد زخمی ، مختلف شہروں میں احتجاج کے دوران بینک، سرکاری دفاتر کو آگ لگادی گئی۔ اپ ڈیٹ

ہفتہ 11 اپریل 2009 18:35

بلوچ رہنماوں کا قتل ،بلوچستان بھر میں پر تشدد واقعات ،9افراد ہلاک ، ..
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11اپریل۔2009ء) بلوچستان میں بلوچ رہنماوں کے قتل کے بعد پر تشدد واقعات میں 9افراد ہلاک ہوگئے جبکہ تربت میں بلوچ رہنماوٴں کے قتل کے خلاف قوم پرست جماعتوں کی اپیل پر بلوچستان کے اکثر علاقوں میں شٹر ڈاوٴن ہڑتال سے کاروبار زندگی مفلوج اور اشیائے خوردونوش کی سخت قلت پیدا ہو گئی ہے ادویات کے حصول میں مریضوں کو مشکلات کا سامنا رہادوسری جانب بلوچ ریپبلکن آرمی نے سریاب روڈ پر فائرنگ اور گزشتہ روز حکومت حمایتی دو افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی ۔

تفصیلات کے مطابق کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں اتوار کو بھی ہڑتال ہے ۔ کاروباری مراکز اور دکانیں بند ہیں جبکہ کوئٹہ میں سریاب روڈ اور بروری کے علاقوں میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

کوئٹہ میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں منوجان روڈ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے ایک اہلکار کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا جبکہ جناح ٹاون میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور ایک بچی سمیت دو افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اسی طرح کرانی میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا ہے ۔ پولیس حکام کے مطابق کوئٹہ کے مضافات میں مارگٹ کے مقام سے چھ افراد کی لاشیں بھی ملی ہیں جنہیں تشدد کے بعد سر میں گولیاں ماری گئی ہیں۔ ان افراد کا تعلق کشمیر، پنجاب اور صوبہ سرحد سے بتایا گیا ہے ۔کوئٹہ میں عالمو چوک کے قریب ریل کی پٹڑی کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔

یہ ریل پٹڑی کوئٹہ کو پاک افغان سرحد پر واقع شہر چمن سے ملاتی ہے ۔ اس کے علاوہ تربت میں ایک ریسٹ ہاوس، مسلم لیگ قائداعظم کے دفتر اور بینک جبکہ پنجگور میں فائر بریگیڈ کی گاڑی اور محکمہ زکوٰة کے دفتر اور نوشکی میں جیل کی نئی عمارت کو آگ لگا دی گئی ہے ۔ تربت، گوادر اور پنجگور میں احتجاجی ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں جبکہ تربت میں خواتین نے فرنٹیئر کور کے کیمپ کے سامنے دھرنا دیا اور سخت نعرے بازی بھی کی۔

ہفتہ اور جمعہ کی درمیانی شب قلات میں سات راکٹ فائر کیے گئے جو ایف سی کیمپ اور مختلف مقامات پرگرے جس سے ایک شخص کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔ دریں اثنا بلوچ ریپبلکن آرمی کے ترجمان سرباز بلوچ نے سریاب روڈ پر فائرنگ اور گزشتہ روز سرکار کے حمایتی دو افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری اپنی تنظیم کی جانب سے قبول کی ہے ۔ سرباز بلوچ نے کہا ہے کہ انھوں نے زین کوہ میں ایف سی کی چوکی پر حملہ کیا ہے لیکن کسی نقصان کی اطلاع نہیں ہے ۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں پرتشدد واقعات کا یہ سلسلہ تین روز قبل بلوچ نیشنل موومنٹ کے سربراہ غلام محمد بلوچ، لالہ منیر اور شیر محمد بلوچ کی لاشیں ملنے کے بعد شروع ہوا ہے ۔ ان افراد کو کچھ روز قبل اغواء کر لیاگیا تھا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں بدھ کی رات تربت کے علاقے سے ملی تھیں۔ان ہلاکتوں کے خلاف پنجگور اور گوادر سے تین یونین کونسل ناظمین نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے جبکہ سابق دور میں مسلم لیگ قائد اعظم اور اب پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے اراکین پارلیمنٹ نے اپنے استعفے جماعت کیسربراہ اسرار زہری کو دے دیے ہیں۔

ادھر صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچ رہنماوں کے قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ وہ تمام افراد جن کے پاس اس بارے میں معلومات ہیں وہ چودہ اپریل تک ٹریبیونل کو فراہم کر سکتے ہیں۔