اصغر خان کیس، مفرور نہیں سپریم کورٹ کوسب کچھ سچ سچ بتا وں گا ، مجھے لفافہ بردار نہیں ”پیغام بردار،، کہا جا سکتا ہے، پیسوں کی تقسیم کے حوالے سے میں نے ذمہ داری نبھائی ، سیاستدانوں کو کن مقاصد کیلئے پیسے دیئے جا رہے ہیں؟کچھ علم نہیں تھا، میں مصطفی جتوئی، جام صادق علی، پیر پگاڑا، سید مظفر شاہ اور محمد خان جونیجو کے پاس گیا، پنجاب میں کون سیاستدان پیسے تقسیم کرتا رہا مجھے اس بارے معلوم نہیں، آرمی اور انٹیلی جنس میں جس کو جتنی ضرورت ہوتی وہ اتنا ہی جانتا ہے میں بھی صرف اس حد تک جاننے کی کوشش کرتا رہا جتنی میری ضرورت تھی، بریگیڈیئر (ر) حامد سعید کی با ت چیت

منگل 16 اکتوبر 2012 22:59

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی این پی۔16اکتوبر ۔2012ء) بریگیڈیئر (ر) حامد سعید نے کہا ہے کہ میں کہیں مفرور نہیں ہوا پاکستان میں ہی موجود ہوں ، سپریم کورٹ کوسب کچھ سچ سچ بتا دوں گا، مجھے لفافہ بردار نہیں لیکن ”پیغام بردار،، کہا جا سکتا ہے، پیسوں کی تقسیم کے حوالے سے میں نے جو ذمہ داری نبھائی وہ میری ڈیوٹی تھی اور مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ سیاستدانوں کو کن مقاصد کیلئے پیسے دیئے جا رہے ہیں، میں مصطفی جتوئی، جام صادق علی، پیر پگاڑا، سید مظفر شاہ اور محمد خان جونیجو کے پاس گیا، پنجاب میں کون سیاستدان پیسے تقسیم کرتا رہا مجھے اس بارے معلوم نہیں، آرمی اور انٹیلی جنس میں جس کو جتنی ضرورت ہوتی وہ اتنا ہی جانتا ہے اور میں بھی صرف اس حد تک جاننے کی کوشش کرتا رہا جتنی میری ضرورت تھی۔

(جاری ہے)

منگل کو سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس جاری کئے جانے کے حوالے سے سے بات چیت کرتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) حامد سعید نے کہا کہ میں کبھی کسی عدالت میں گیا ہوں اور نہ ہی مجھے عدالتوں سے کوئی واسطہ ہوتا ہے لیکن اب اصغر خان کیس میں مجھے بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے میرے پاس جو بھی معلومات ہیں وہ سپریم کورٹ میں حاضر ہو کر پیش کروں گا اور اپنا موقف بھی بتاؤں گا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ آئی ایس آئی میں تھے تو یہ سیاستدانوں میں لفافے تقسیم کرنے کا معاملہ کیا ہے، کیا آپ لفافہ بردار ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ میں لفافہ بردار نہیں ہوں۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ مجھے یہ معلوم تھا کہ میں جو لفافے سیاستدانوں کو دے رہا ہوں ان میں پیسے ہیں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ سیاستدانوں کو کن مقاصد کیلئے پیسے دیئے جا رہے ہیں اور ویسے بھی آرمی اور انٹیلی جنس کا یہ قانون ہے کہ کوئی بھی افسر صرف اتنی بات پوچھے جتنی اس کیلئے ضروری ہے اور میں نے بھی ضرورت سے زیادہ اپنے افسران سے کچھ نہیں پوچھا لیکن میں نے جو کچھ بھی کیا مجھے اس کا حکم جنرل اسد درانی کی طرف سے دیا گیا اور اب سپریم کورٹ نے مجھے بلایا ہے جہاں پر میں اپنا موقف بیان کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ جن جن سیاستدانوں کو پیسے میرے ذریعے سے دیئے گئے ان کے نام 1994ء میں سامنے آ چکے ہیں اور میں سپریم کورٹ میں بھی ان کے نام بتا دوں گا۔