شاہ زیب قتل کیس‘سپریم کورٹ کی آئی جی سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل کی عدم حاضری پر برہمی،ملزمان کے پاسپورٹ منسوخ ،24گھنٹوں میں گرفتار،جائیداد اور اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم ، سفاکانہ قتل پر دنیا بھر میں شور مچا ہوا ہے لیکن باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ،ملزمان گرفتار نہ کئے گئے توآئی جی سندھ اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے، چیف جسٹس افتخار محمد چودھر ی کے ریمارکس، سماعت 7جنوری تک ملتوی

جمعہ 4 جنوری 2013 16:52

شاہ زیب قتل کیس‘سپریم کورٹ کی آئی جی سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل کی عدم ..
{#EVENT_IMAGE_1#}اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی این پی۔ 4جنوری2013ء ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھر ی نے شاہ زیب قتل کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران آئی جی سندھ اور ایڈووکیٹ جنرل کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ ملزمان کے پاسپورٹ منسوخ کرکے 24گھنٹوں میں گرفتار اور کل ہفتہ تک ملزمان کی جائیداد اور بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جائیں، سفاکانہ قتل پر دنیا بھر میں شور مچا ہوا ہے لیکن باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے ،ملزمان گرفتار نہ کئے گئے توآئی جی سندھ اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے۔

کیس کی سماعت 7جنوری تک ملتوی کردی گئی۔جمعہ کو چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ شاہ زیب قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔

(جاری ہے)

آئی جی سندھ کے پیش نہ ہونے پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ساری دنیا میں اس سفاکانہ قتل کا شور مچا ہوا ہے لیکن آئی جی کو کوئی پروا نہیں ہے۔ آئی جی سندھ جان بوجھ کر پیش نہیں ہوئے۔

ملزمان کی گرفتاری کا حکم پانچ دن پہلے دیا گیا تھا لیکن اب تک اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ غریب کے بچے کو بے دردی سے مار دیا گیا۔ قاتلوں پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔چیف جٹس افتخار محمد چودھرری نے ریمارکس دئیے کہ اتنا اہم کیس ہے اور کسی کو احساس ہی نہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ اب تک ملزمان کی جائیداد ضبط ہوجانی چاہئے تھی اور ان کے پاسپورٹس منسوخ ہونے چاہئے تھے۔

ایڈیشنل آئی جی سندھ رفیق حسن نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی کراچی میں چہلم جلوس کی سیکیورٹی کے باعث نہیں آئے، شاہ زیب قتل کیس کے حوالے سے ڈی آئی جی کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ جسٹس گلزار نے سماعت کے دوران کہا کہ آپ کو کیس سے متعلق معلوم نہیں، تفریح کے لیے اسلام آباد چلے آئے، کیا آئی جی خود جا کر جلوس کی سیکیورٹی دیکھتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ پیش کردہ دستاویزات سے ثابت نہیں ہوتا کہ گرفتاری کی سنجیدہ کوشش کی گئی، کراچی میں ویسے ہی حالات خراب ہیں، ادارے موجود ہیں لیکن کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے، کیس کو لمبا کر کے خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ملزمان کی جائیداداورکے بینک اکاؤنٹس منجمد کیوں نہیں کرائے گئے، کیا آپ کو قانون کا پتا نہیں ہے،ملزمان کی گرفتاری میں رکاوٹ بننے والوں کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا، ملزمان کی گرفتاری کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔

ایڈیشنل آئی جی سندھ رفیق حسن نے عدالت کو بتایا کہ پولیس ٹیمیں تشکیل دی گئیں، انکوائری جاری ہے۔عدالت میں سماعت کے دوران ملزم کے والد سکندر جتوئی کے نجی ٹی وی کو انٹرویو کی فوٹیج بھی دکھائی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ قاتل کا باپ ٹی وی پر انٹرویو دے رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس موقع پر انسپکٹر مبین نے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے سخت سرزنش کی اور کہا اْپ نے پہلے بھی ایک کیس خراب کیا۔کیا اب دوسرا کیس بھی خراب کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جن لوگوں نے ملزمان کو بھگایا انہیں گرفتار کیا جائے۔سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔