سکھر میں آثار قدیمہ لکھین جو دڑو میں آرکیالوجسٹس کی جانب سے نوادرات کی تلاش جاری ،حکومتی فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے تلاش کا کام سست روی کا شکار

جمعرات 7 فروری 2013 20:01

سکھر(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔7فروری۔ 2013ء) سکھر میں آثار قدیمہ لکھین جو دڑو میں شاہ عبد الطیف یونیورسٹی کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے نوادرات کی تلاش جاری حکومتی فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے تلاش کا کام سست روی کا شکار ہے سکھر سائٹ ایریا میں موجود موئن جو دڑو کے ہم عصر دریافت ہونے والے سندھ کے چوتھے بڑے شہر لاکھین جو دڑو پر دو سال کے وقفہ کے بعد شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے دوبارہ چیئرمین آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر قاصد ملاح کی سربراہی میں تین رکنی ٹیم نے محنت کشوں کے ساتھ قیمتی نوادرات کی تلاش کا کام شروع کردیا ہے جبکہ اب تک مختلف اقسام کی چیزیں دریافت کی جاچکی ہیں۔

(جاری ہے)

لاکھین جو دڑو کی سائٹ کا رقبہ تین اسکوائر کلو میٹر ہے دو سال قبل کھدائی کے دوران ملنے والے ساٹھ فیصد نوادرات کی لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے تصدیق ہوچکی ہے کہ یہ موئن جو دڑو کے ہم عصر نوادرات ہیں اور ان کی تاریخ ساڑھے 5 ہزار سال پرانی ہے جبکہ حکومت کی عدم توجہی اور فنڈز مہیا نہ کرنے کے باعث اس آثار قدیمہ میں مزید نوادرات کی تلاش کا کام انتہائی سست روی کا شکار ہے لاکھئین جو دڑو سے 2009 اور 2010 میں کھدائی کے دوران زیر زمین قیمتی نوادرات میں کھلونے، برتن، قسمت کا حال جانچنے والی ڈائس سمیت نودرات ملے تھے جن پر تاحال تحقیق مکمل نہیں ہوسکی ہے۔