سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کی اسٹیٹ بینک کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کی شدید مخالفت ،کراچی منی پاکستان اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز ہے اس کی منتقلی کا کوئی جواز نہیں ، سلام آباد منتقل کرنے سے کیا فائدہ ہو گا،سینیٹر ایم حمزہ،کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی،مرکزی بینک اسلام آباد میں ہونا دارالحکومت کا حق ہے،سینیٹر حاجی عدیل، افراسیاب خٹک

پیر 6 جنوری 2014 22:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6 جنوری ۔2014ء) سینیٹ کے اجلاس میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ نے اسٹیٹ بینک کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی منی پاکستان اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز ہے اس کی منتقلی کا کوئی جواز نہیں ، اسلام آباد منتقل کرنے سے کیا فائدہ ہو گا جبکہ اے این پی نے مطالبہ کیا کہ مرکزی بینک اسلام آباد میں ہونا دارالحکومت کا حق ہے ۔

پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ہیڈ کوارٹر کو کراچی سے اسلام آباد منتقل نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہونیوالی صورتحال پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اے این پی کے سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد قانون ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس سندھ اسمبلی کی عمارت میں ہوا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد مشاورت کے بعد دارالحکومت کراچی میں بنایا گیا جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک سمیت تمام بڑے بینکوں اور اداروں کے ہیڈ آفس کراچی میں بنے۔

100 بڑے تجارتی اداروں کے صدر دفاتر اور درآمدی و برآمدی تجارتی فرموں کے دفاتر بھی کراچی میں ہیں۔ ون یونٹ بنایا گیا تو اے این پی نے اس کی مخالفت کی۔ کراچی کو دارالحکومت بنانے کیخلاف بھی ہم نے تحریک چلائی۔ ون یونٹ پاکستان ٹوٹنے پر ہی ٹوٹا۔ ہماری ان تحریکوں پر دارالحکومت اسلام آباد لایا گیا۔ اسلام آباد کے دارالحکومت بننے کے بعد دیگر تمام اداروں کے مراکز اسلام آباد منتقل کئے گئے لیکن اسٹیٹ بینک اسلام آباد نہ لایا گیا جس کی وجہ سے کراچی سارے ملکی کاروبار کو لیڈ کرنے لگا۔

چین اور بھارت سمیت اگر دیگر ممالک مرکزی بینک بڑے تجارتی شہروں کی بجائے دارالحکومتوں میں ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے صدر دفتر کی اصل جگہ اسلام آباد ہے۔ کراچی میں آج بھی 20 لاکھ بنگالی رہتے ہیں۔ ہندوستانی اور افغان مہاجر بھی آباد ہیں۔ اسٹیٹ بینک اسلام آباد آنے سے بینک بڑے تجارتی گروپوں کے دباؤ سے آزاد ہوجائے گا۔ کراچی صرف اردو بولنے والوں کا شہر نہیں ہے۔

اردو پنجابیوں‘ بلوچیوں اور سندھیوں کی زبان نہ تھی پھر بھی قبول کرلی۔ شیروانی ہمارا قومی لباس نہ تھا لیکن قائداعظم نے پہنی تو ہم نے اسے قومی لباس کے طور پر تسلیم کرلیا حالانکہ یہ تارا سنگھ اور نہرو کا لباس تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارت سے آنے والوں کو رہنے کی جگہ دیں پھر بھی وہ الگ ہونے کی بات کریں‘ کس کس سے الگ ہوں گے۔ کل آپ کو بھارت پسند نہ تھا اور آج کوئی اور ناپسند ہوگیا۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ کراچی بڑا تجارتی مرکز اور 70 فیصد محصولات فراہم کرنے والا شہر ہے۔ تمام بڑے بینکوں کے صدر دفاتر اسی شہر میں ہیں۔ اسٹیٹ بینک کو اسلام آباد لانے کا کوئی بھی ذی شعور شہری تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ ایسا مطالبہ کیا جائے گا۔ حکومت اسٹیٹ بینک کو مزید اختیارات دینا چاہتی ہے جو قابل ستائش ہے۔

اسلام اباد لانے سے اسٹیٹ بینک کو نقصان ہے۔ سندھ کو پہلے ہی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے اب اس طرح کے مطالبے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔ اے این پی کے افراسیاب خٹک نے کہا کہ مرکزی بینک کو دارالحکومت میں ہونا چاہئے۔ یہ اصولی مطالبہ ہے۔ تمام صدر دفاتر دارالحکومت میں ہونے چاہئیں۔ ایم حمزہ نے کہا کہ کراچی ملک کا صنعتی شہر ہے۔ اس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک تمام بینکوں کے دفاتر کراچی میں ہیں اسلئے اسٹیٹ بینک کے کراچی میں رہنے سے ملک کو کوئی نقصان نہیں۔