رواں مالی سال ملکی ترقی کیلئے مقررہ کردہ شرح نمو حاصل ہونے کی توقع نہیں ہے، سٹیٹ بینک،دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا مالی خسارہ کولیشن سپورٹ فنڈ سے زیادہ ہے، جنگ میں انسانی جانوں کے نقصان کے علاوہ امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہورہی ہے،جائزہ رپورٹ مالی سال 2012-13

بدھ 15 جنوری 2014 20:40

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15 جنوری ۔2014ء) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ مالی سال 2013 2012 کی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے جب کہ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال ملکی ترقی کے لئے مقرر کیا جانے والا شرح نمو حاصل ہونے کی توقع نہیں ہے۔ بدھ کو جاری کی گئی مالی سال 2012-13 کی جائزہ رپوٹ میں کہاگیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں بہت سارے معاشی اہداف حاصل نہیں ہوسکے تھے جب کہ رواں مالی سال کے دوران ملکی ترقی کیلئے 4.4 مقرر کیا جانے والا شرح نمو حاصل ہونے کی توقع نہیں ہے جب کہ رواں مالی سال مہنگائی بھی ہدف سے زیاہ رہے گی جس کی وجہ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ، روپے کی قدر میں کمی ، جی ایس ٹی میں اضافہ اور اس کے علاوہ گندم کے کم ذخائر بھی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذراعت کے شعبے میں گنے کی فصل کے علاوہ کسی فصل کی کارکردگی قابل ذکر نہیں رہی، جب کہ توانائی بحران کا خاتمہ حکومت کی ترجیح میں شامل ہے لیکن نجی شعبے میں روزگار کے مواقع بڑھانا بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 میں نیٹو افواج کے انخلا سے کولیشن سپورٹ فنڈ بڑھ سکتا ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا مالی خسارہ کولیشن سپورٹ فنڈ سے زیادہ ہے۔

اس جنگ میں انسانی جانوں کے نقصان کے علاوہ امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہورہی ہے جس سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول بھی شدید متاثر ہوا اور بہت سارے کاروباری حضرات ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ معیشت کی بہتری کیلئے ٹیکس نیٹ بڑھانے، توانائی کی چوری اور دستاویزی معیشت کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے جو اس وقت جوں کے توں ہیں۔

پورٹ میں کہا گیا کہ تعمیراتی سرگرمیوں میں بھرپور نمو اور چند ذیلی شعبوں کی استعداد میں اضافے سے صنعتی شعبے کو فائدہ ہوا۔ عالمی نرخوں سے پاکستان کا درآمدی بل قابو میں رکھنے میں مدد ملی اور برآمدات میں کسی قدر بہتری آئی۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کے انتظام کی مشکلات، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، غیرہدفی زراعانت کو قابو میں رکھنے، شعبہ توانائی میں چوری اور رساؤ سے نمٹنے، نجی شعبے کی بحالی اور دستاویزیت بڑھانے کے معاملات گزشتہ مالی سال کے دوران زیادہ تر جوں کے توں رہے۔

رپورٹ کے مطابق دوران سال حکومت نے کمرشل بینکوں سے 939.6 ارب روپے اور اسٹیٹ بینک سے اضافی 506.9 ارب روپے قرض لیے۔ اس طرح پاکستان کا ملکی قرضہ 19 کھرب روپے بڑھ گیا جومالی سال 2011-12 کے آخر سے 24.6 فیصد زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق بیرونی رقوم کے فقدان کے باعث قدرے مختصر جاری کھاتے کے خسارے کو پورا کرنے میں بھی مشکلات پیش آئیں۔ مالی کھاتے میں دوران سال صرف 0.3 ارب ڈالر کی خالص رقم آئی جبکہ پچھلے سال 1.3 ارب ڈالر اور م س 10ء میں 5.1 ارب ڈالر آئے تھے۔

اس کے ساتھ آئی ایم ایف کو قسطوں کی ادائیگی کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے سیال زر مبادلہ ذخائر آخر جون 2013ء تک 6 ارب ڈالر رہ گئے جو 55 ماہ کی نچلی سطح ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی کے مطابق جی ڈی پی کی نمو م س 14ء میں 3.0 سے 4.0 فیصد کی حدود میں ہوگی جو آئی ایم ایف کی نمو کی پیش گوئی 2.5 تا 3 فیصد سے زیادہ ہے۔ اگرچہ قبل ازیں رپورٹ ہونے والا اکتوبر 2013ء کے ڈیٹا پر مبنی گرانی کا منظرنامہ، 10.5 سے 11.5 فیصد کے درمیان تھا، تاہم تازہ ترین ڈیٹا کی بنیاد پر زیادہ حقیقت پسندانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی سال2013-14 میں اوسط گرانی 10 سے 11 فیصد کے درمیان رہے گی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ آئی ایم ایف سے تین سالہ توسیعی فنڈ سہولت (6.64 ارب ڈالر) کی منظوری اور دیگر بین الاقوامی مالی اداروں سے متوقع رقوم کی آمد سے رواں مالی سال کے دوران ملکی بازار مبادلہ میں استحکام آنا چاہیے۔