کاش وہ زمانہ واپس آجائے میں وزیر اعظم سے دوبارہ گورنمنٹ کالج کا طالبعلم بن جاؤں ،نواز شریف گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سالانہ کانووکیشن سے خطاب کے دوران اپنے ماضی میں کھو گئے

جمعہ 17 جنوری 2014 16:47

لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17جنوری 2014ء) وزیر اعظم محمد نواز شریف گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سالانہ کانووکیشن سے خطاب کے دوران اپنے ماضی میں کھو گئے ،ماضی کے قصے سنا کر اور نو ارب کی ڈگری کی بات کر کے محفل کو کشت زعفران زار بنادیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج جب میں تقریب میں شرکت کے لیے آ رہا تھا تو یادوں کا قافلہ میرے ساتھ ہم سفر تھا ، ان دنوں کی یادیں جب زندگی صرف افسردگی کا نام تھا ، جب ذمہ داری کم اور بے فکری زیادہ تھی جیسے کے آپ ہیں ،دوستوں کی مجلس اور گپ شپ میں دلچسپی زیادہ اور کلاس روم میں کم جیسے کہ آپ ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ جب وائس چانسلر صاحب نے یہاں کی کھیلوں کی سر گرمیوں کا ذکر کیا تو بڑے بڑے نام لئے لیکن میں بڑا حیران تھا کہ میرا نام کیوں نہیں لیا جبکہ میں یہاں کے کالج کی کرکٹ ٹیم کا بہترین کھلاڑی ہوا کرتا تھا جس پر تمام شرکاء نے قہقہے لگائے ۔

(جاری ہے)

جب یہ ادارہ ایک یونیورسٹی نہیں ایک کالج تھا کہتے ہیں عمر رفتا کبھی لوٹتی نہیں لیکن انسان خواہش کرتا ہے کہ گزرے دنوں کو آواز دے میرا دل بھی چاہتا ہے کہ بے فکری کے وہی دن لوٹ آئیں اور میں ایک بار پر گورنمنٹ کالج اور سکول کا طالب علم بن جاؤں ۔

کینٹین ، کرکٹ اور دوست پھر سے وہ قابل احترام اور شفیق استاد مل جائیں جو علم ہی کی دولت سے مالا مال نہیں ہوتے تھے بلکہ تہذیب بھی سکھاتے تھے ۔ جو نصاب کی کتاب ہی نہیں بلکہ کتاب حیات کا سبق بھی پڑھاتے تھے ، تاہم میں جانتا ہوں کہ اس خواہش کہ ساتھ ایک لفظ ”کاش “لگا ہوا ہے جو ہماری بے بسی کا مذاق اڑاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب میں اس تقریب میں پہنچا تو بہت سے شناسا لوگ دیکھے لیکن چہرے پر پھیلتے لکیروں کے جال نے جیسے ماضی کی کہانی لکھ دی ہو ۔

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ جب میں یہاں پہنچا پرنسپل کا وہی پرانا دفتر نظر آیا میں کئی سالوں کے بعد یہاں آیا ہوں ، جس میں جلا وطنی کے سال بھی شامل ہیں اور اس کے بعد آنے کا موقع نہیں ملا لیکن آج یہاں پہنچا ہوں تو دیکھا وہی دفتر ہے وہی نقشہ ہے وہی پرانی کہانی وہ سب داستانیں یاد آ گئیں وہ سارا خوشگوار ماضی یاد آیا گیا ناخوشگوار ماضی بھی یاد آیا اچھی چیزیں بھی یاد آئی تھوڑی سے بری چیزیں بھی یاد آئی ۔

مجھے یہ کہنے دیجئے کہ 1999ء میں جب واشپائی صاحب لاہور آئے تھے تو ان کے ساتھ انڈین فلمسٹار دیو آنند بھی آئے ۔ انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے بس اور کچھ دکھائیں یا نہ دکھائیں بس مجھے گورنمنٹ کالج ضرور دکھائیں میں نے اپنا گورنمنٹ کالج دیکھنا ہے ۔ ہم نے ان کو گورنمنٹ کالج کا دورہ کروایا انہوں نے مجھے بتایا کہ میں تو جناب وہاں کی دروازوں اور دیواروں کو چومتا رہا ہوں ۔

کلاس روم کو چومتا رہاں ہو ں ۔انہوں نے کہا کہ کاش کہ وہ زمانہ واپس آجائے اور میں وزیر اعظم سے دوبارہ یہاں کا طالبعلم بن جاؤں اور میں یہی گھومتا پھرتا رہوں نہ کے وزیر اعظم ہاؤس کہ اندر بند کمروں میں بیٹھ کر میٹنگز کرتا رہوں ۔ ایک موقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ وائس چانسلر صاحب نے مجھے ڈگری تو دی ہے ساتھ ہی انہوں نے 9ارب روپے کی بات بھی کی ہے ۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ مجھے ڈگری دی گئی ہے کہ میں اسے خرید رہا ہوں جس پر شرکاء نے بھرپور تالیاں بجائیں اور قہقے لگائے۔انہوں نے کہا کہ میرے لیے یہ بات باعث اعزاز ہے کہ مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری کا اعزازی مستحق سمجھا گیا ۔ میرے لیے یہ بات اس لیے زیادہ مسرت کا سبب ہے کہ یہ میرے اپنی درسگاہ ہے ۔ میں شکر گزار ہوں کہ مجھے نواز شریف سے ڈاکٹر نواز شریف بنا دیا گیا ہے جس پر دوبارہ قہقہے بلند ہوئے ۔

متعلقہ عنوان :