عدالت کی تشکیل میں‌ سپریم کورٹ کی مداخلت سے تمام عمل متعصب ہو گی، وکیل مشرف

جمعرات 23 جنوری 2014 16:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 23جنوری 2014ء) خصوصی عدالت میں پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت میں متفرق درخواستوں پر دلائل جاری،پرویز مشرف کے وکیل انور منصور کہتے ہیں خصوصی عدالت کی تشکیل میں سپریم کورٹ کی مداخلت سے تمام عمل متعصب ہو گیا،عدالت عظمیٰ کو اس بارے میں ہدایات جاری نہیں کرنی چاہئے تھیں۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے مشرف غداری کیس کی سماعت کی۔

جسٹس فیصل عرب نے ایڈووکیٹ انور منصور کو اپنے دلائل کی تحریری کاپی عدالت جمع کرانے کی ہدایت کی،انہوں نے کہا کہ دو طرفہ دلائل کا جائزہ لینے کے بعد آئین، قانون اور حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرینگے۔انور منصور اور اکرم شیخ میں خوشگوار جملوں کے تبادلے پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ مثبت تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

انور منصور نے کہا کہ گریڈ اکیس کے افسر سیکرٹری داخلہ نے عدالتی تشکیل اور ججز تقرری میں اہم کردار ادا کیا۔

ایک سیکرٹری کو کسی بھی شخص کیخلاف کارروائی کا اختیار نہیں ہوتا۔کارروائی کیلئے کابینہ سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔اگر قواعد و ضوابط آئین سے متصادم ہوں تو برتری آئین کو حاصل ہو گی۔اکرم شیخ نے کہا کہ وفاقی حکومت سے متعلقہ مقدمات کے حوالے سے وزارت قانون و انصاف ذمہ دار ہے،عدالتی قیام کا عمل وزارت قانون نے مکمل کیا۔قانون کے مطابق معاملہ ضروری کارروائی کیلئے وزیراعظم کو بھجوایا گیا۔

ایڈووکیٹ انور منصور نے موقف اختیار کیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل میں سپریم کورٹ کی مداخلت سے تمام عمل متعصب ہو گیا۔عدالت عظمیٰ کو اس بارے میں ہدایات جاری نہیں کرنی چاہئے تھیں۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل چھ کی کارروائی کا اختیار خالصتاٍ وفاقی حکومت کا ہے جبکہ ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ کے نتیجے میں آرٹیکل چھ کی کارروائی کا فیصلہ وفاقی حکومت نے نہیں کیا۔

ایڈووکیٹ انور منصور نے کہا کہ خصوصی عدالت کیلئے تمام ہائیکورٹس سے ججز لینے کی ضرورت نہیں،جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ کیا ججز کسی ایک ہائی کورٹ سے ہی لیے جا سکتے ہیں،کیا وزیر اعظم اور کابینہ کے ماتحت کام کرنے والی تمام مشنیری وفاقی نہیں۔ایڈووکیٹ انور منصور نے کہا کہ مشنیری کے دیگر اجزاء وفاقی حکومت کے افسران ہیں،وفاقی حکومت نہیں، کیونکہ وہ فیصلہ سازی کا اختیار نہیں رکھتے۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آئین میں آرٹیکل ننانوے بھی ہے جس میں وفاقی امور کے طریقہ کار چلانے کا طریقہ درج ہے، جسٹس طاہرہ صفدر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل ننانوے اور رولز اف بزنس کو اکٹھا ملا کر نہیں پڑھا جائیگا۔پراسیکیوٹر طارق حسن نے کہا کہ وکیل صفائی انور منصور نے کے نزدیک وفاقی حکومت صرف وزیراعظم اور وفاقی وزراء ہیں، آئین میں وفاقی حکومت کا لفظ چار سو سے زائد مرتبہ آیا ہے، ہر جگہ وزیراعظم اور وزراء کو ہی وفاقی حکومت قرار دیا جائے تو باقی مشینری کا کردار کہاں جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی پراپرٹی کو صرف وزیراعظم اور وفاقی وزراء کی جائیداد تصور کیا جائے،اختیارات تفویض کرنے کا معاملہ بھی وفاقی حکومت کو دیا گیا ہے،کابینہ کو نہیں۔کیس کی سماعت کل پھر ہو گی۔

متعلقہ عنوان :