کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کو تعصب کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے،شرجیل انعام میمن ،ایم کیو ایم کے ارکان کا جوش خطابت اچھی بات ہے ، حقائق ، حقائق ہوتے ہیں ، چیخنے چلانے سے حقائق کو چھپایا نہیں جا سکتا ،وزیر اطلاعات،پچیس تیس سال سے کراچی میں معصوم لوگوں کو قتل عام ہو رہا ہے ، خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے،سندھ اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر بیان ،وزیر داخلہ کی یقین دہانی کے باوجود انار کلی بازار سے ہمارے کارکن شاہ رخ ولد کبیر کو لوگ رات کے وقت اٹھا کر لے گئے ہیں ،خواجہ اظہار الحسن

جمعہ 14 فروری 2014 19:20

کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کو تعصب کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے،شرجیل ..

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14 فروری ۔2014ء) سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن کو تعصب کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے ۔ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے ارکان کا جوش خطابت اچھی بات ہے لیکن حقائق ، حقائق ہوتے ہیں ۔ چیخنے چلانے سے حقائق کو چھپایا نہیں جا سکتا ۔ ان زمینی حقائق سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ پچیس تیس سال سے کراچی میں معصوم لوگوں کو قتل عام ہو رہا ہے اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ کیا کسی کو اس بات کا پتہ نہیں ہے کہ کراچی میں کیا ہو رہا ہے ۔ ایم کیو ایم والے ہم سے کیا کہلوانا چاہتے ہیں ۔ وہ جمعہ کو سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن کے نکتہ اعتراض پر بیان دے رہے تھے ۔

(جاری ہے)

خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جمعرات کو ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ سادہ لباس میں سکیورٹی اہلکار کسی کو گرفتار نہیں کریں گے لیکن میرے حلقے میں انار کلی بازار سے ہمارے کارکن شاہ رخ ولد کبیر کو سادہ لباس میں لوگ رات کے وقت اٹھا کر لے گئے ہیں ۔ اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ انہیں گرفتار کیا گیا ہے یا وہ اغواء ہوئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے وفاقی وزیر کو ایم کیو ایم کے تحفظات سے آگاہ کیا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ ہمارے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل ہو رہے ہیں اور ماورائے آئین اقدامات ہو رہے ہیں ۔ کراچی میں سادہ لباس میں کچھ لوگ آتے ہیں اور وہ لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ اس سے کراچی کی عوام میں بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے ۔ لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ پولیس والے ہیں یا جرائم پیشہ گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایسی حرکتوں سے آپریشن کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ٹارگیٹڈ آپریشن میں 15 ہزار گرفتاریاں ہوئی ہیں ، جن میں سے صرف 63 افراد ایسے ہیں ، جن کا تعلق طالبان یا کالعدم تنظیموں سے ہے ۔ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ کراچی میں کوئی بھی واقعہ ہو تو پولیس والے کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم والوں کو ڈھونڈو ۔ دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری طالبان قبول کر رہے ہیں ۔

اس کے بعد تو ایم کیو ایم کو ہر واقعہ میں ملوث قرار دینے کا رویہ تبدیل ہونا چاہئے ۔ لگتا ہے کہ کسی منصوبہ بندی کے تحت کراچی کو حوالے کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ ایک ماہ بعد طالبان کا یہ بیان آ جائے گا کہ وہ کراچی کو خود کنٹرول کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام کی برداشت ختم ہوتی جارہی ہے ۔ اگر پولیس کو اسی طرح غلط گائیڈ کیا جاتا رہا تو آنے والے وقت میں شاید حکومت سندھ کے پاس صورت حال کو کنٹرول کرنے کا وقت بھی نہ ہو ۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی ہے ، صرف ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے ۔ ہم ٹارگیٹڈ آپریشن میں حکومت ، وزیر اعلیٰ سندھ ، رینجرز اور پولیس کی حمایت کرتے ہیں لیکن اگر بے گناہ لوگوں کی لاشیں ملتی رہیں اور اس طرح گرفتاریاں ہوتی رہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اندیشے سچ ثابت ہو جائیں اور ہمارے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہ ہو ۔

انہوں نے کہا کہ جب تک طالبان نے پولیس پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ، تب تک ایک وزیر صاحب اپنے بیانات سے کچھ اور تاثر دیتے رہے ۔ اس پر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ میں نے کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں لیا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ یہ کارروائی ان عناصر کی ہو سکتی ہے ، جو ٹارگیٹڈ آپریشن سے خوش نہیں ہیں ۔ میں نے کون سی غلط بات کہی ہے ۔ ہر کوئی اپنے اوپر بات کیوں لے لیتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن کو تعصب کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے ۔ سب کمیونٹیز کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے ۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ایک خاص کمیونٹی کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے ۔ ایسا تاثر پیدا کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ میں سندھ اسمبلی کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا ۔ جو گرفتاریاں ہوئی ہیں ، ان کے حوالے سے میں ایک ایک کیس پر بات کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ محض الزام تراشیاں نہ کی جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم والے میرے بیان کے حوالے سے تو بات کررہے ہیں لیکن جو پولیس اہلکار شہید ہوئے ہیں ، ان کے بارے میں بات نہیں کر رہے ۔