حکومت نے تین حصوں پر مشتمل پہلی قومی سلامتی پالیسی پیش کردی ،نیکٹا کو فعال ‘تمام انٹیلی جنس اداروں کا جوائنٹ ڈائریکٹوریٹ بنے گا ، مذاکرات ہو ں یا ملٹری آپریشنز یا مذاکرات کیساتھ کارروائی کامیابی کیلئے اتفاق رائے نا گزیر ہے ،امن و امان نہیں پاکستان کے وجود اور مستقبل کا معاملہ درپیش ہے‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا قومی اسمبلی میں خطاب

بدھ 26 فروری 2014 15:16

حکومت نے تین حصوں پر مشتمل پہلی قومی سلامتی پالیسی پیش کردی ،نیکٹا ..

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 26فروری 2014ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں پہلی قومی سلامتی پالیسی پیش کردی ،پالیسی کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان بہتر رابطے کیلئے مشترکہ ڈائریکٹوریٹ کا قیام اور کاؤنٹر ٹیرر ازم کیلئے ریپڈ رسپانس فورس قائم کی جائیگی،وزیر داخلہ نے ایوان کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ پالیسی تین حصوں پر مشتمل ہے ،پالیسی کا پہلا حصہ خفیہ رکھا جائے گا جس کا تعلق سکیورٹی پالیسی کے انتظامی معاملات سے ہے،دوسرا مرحلہ سٹریٹیجک ہے جبکہ تیسرا حصہ آپریشنل سے متعلق ہے جبکہ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہیہ مسلم لیگ (ن) یا حکومت کی نہیں بلکہ قوم کی سکیورٹی پالیسی ہے،یہ حرف آخر نہیں ایوان میں موجود تمام جماعتیں اسے پڑھیں اور اپنی تجاویز دیں میں یقین دلاتا ہوں کہ جو حکومت کے دائرہ اختیار میں ہوگا ان تجاویز کو اس پالیسی کا حصہ بنائیں گے ، مذاکرات ہو ں یا ملٹری آپریشنز یا مذاکرات کے ساتھ کارروائی ان سب کی کامیابی کے لئے اتفاق رائے نا گزیر ہے اور اگر ہم اس میں کامیاب ہوتے ہیں تو آگے بڑھ سکیں کیونکہ یہ پاکستان کے وجود اور مستقبل کا مسئلہ ہے ۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر داخلہ نے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں پہلی قومی سلامتی پالیسی پیش کی ۔ اس موقع پر وزیر اعظم محمد نواز شریف بھی موجود تھے ۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میں سب کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ 13سال سا ل سے ملک انتہائی گھمبیر صورتحال سے دوچار ہے ۔ میں یہ سوال نہیں کروں گاکہ شدید ترین سلامتی کی صورتحال کے باوجود چار حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس پر کوئی پالیسی لائی جاے، اسمبلی میں آنا تو دور کی بات جب بھی کسی ملک کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے تو سب سے پہلے ایک پالیسی مرتب کرنے پر فوکس ہوتا ہے ۔

میں سوال نہیں کرنا چاہتا کہ 13سالوں میں ان چار حکومتوں نے ا س طرف کیوں توجہ نہیں دی لیکن یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا کہ آج کہا جاتا ہے کہ حکومت کنفیوژڈ ہے لیکن چھ ماہ میں وزیر اعظم کی رہنمائی میں جس طرح موجودہ حکومت نے مشکل ترین حالات کے باوجود اس طرف اپنی توجہ کو مرکوز کیا ہے اگر تیرہ سال میں اسکی مثال ملتی ہے تو سامنے لائی جائے ۔

کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں اسے پیش کیا گیا جس پر سیر حاصل بحث ہوئی اور اسکے بعد اسکی نوک پلک بہتر بنانے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی اور اسکی رپورٹ کی روشنی میں متفقہ طور پرکابینہ میں یہ سکیورٹی پالیسی منطور ہوئی او روزیر اعظم نے فیصلہ کیا یہ انتہائی اہم اورحساس مسئلہ ہے یہ مسلم لیگ (ن )یا اس حکومت کی نہیں بلکہ اس قوم کی سکیورٹی پالیسی ہے اس لئے اسے ایوان میں پیش کیا جائے ۔

دنیا میں بہت سارے ماڈلز ہیں اور ہم نے اس میں کئی کا حوالہ بھی دیا ہے ،ہم دائیں بائیں سے کچھ ایریاز سے مستفید ہوئے ہیں لیکن یہ پالیسی پاکستان کی پالیسی ہے ۔ امریکہ ‘ برطانیہ‘ سری لنکا ‘بھارت کا پس منظر دیکھیں انکی سکیورٹی پالیسی بننے میں مہینے نہیں بلکہ سال لگے جبکہ ہم نے پانچ ماہ میں یہ پالیسی ترتیب دی جس میں کوشش کی گئی کہ ماہرین ‘ ریٹائرڈ سکیورٹی افسران ‘ افواج پاکستان کی رائے لی جائے اسکے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رائے لی ۔

میں نے ایوان میں کھڑے ہو کر سب کو دعوت دی کہ اس میں اپنا حصہ ڈالیں لیکن صرف ایک پارٹی ایم کیو ایم کی طرف سے اس سلسلہ میں دستاویز آئی اور میں ان کا مشکور ہوں ۔ میں نے تمام وزرائے اعلیٰ کو خط لکھا کہ سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے آراء دیں اور کوئی چیز شامل کرنا چاہتے ہیں ،میٹنگز میں آنا چاہتے ہیں تو آئیں لیکن کسی صوبے کی طرف سے کوئی رائے یا مطالبہ نہیں آیا ۔

یہاں ہر چیز تقاریر کی نظر ہو جاتی ہے ۔ ہر شام کو ٹاک شوز میں بات سے بات آگے بڑھائی جاتی ہے ۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ہر مکتبہ فکر کی رائے لی جائے تیرہ سال کے تجربات سے فائدہ لیا جائے ہم نے بین الاقوامی ماڈلز سے استفادہ کیا اور سب سے بڑی بات ہے کہ اپنے مالی معاملات کو مد نظر رکھ کر پالیسی ترتیب دی جائے ۔ یہ کوئی آخری حرف نہیں یہاں بھی اس پر بحث ہونی چاہیے ، تمام لوگ اپنی آراء دیں میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر آپ کی تجاویز ہمارے دائرے کار میں ہوئیں تو انہیں پالیسی میں شامل کیا جائے گایہ بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مربوط ایک سکیورٹی پالیسی ہے ۔

ہم نے دیکھنا ہے کون سے ایریاز ہیں جہاں ہمیں زیادہ فوکس کرنا ہے او رکون سے ہیں جہاں فوکس کیا گیا اورانہیں ایک طرف کرنے کی ضرورت ہے ہم تجربے سے معاملے کو آگے بڑھائیں گے۔ میں توجہ دلانا چاہتا ہوں آپ جس حوالے سے مدد کرنا چاہیں گے حصہ دار بننا چاہیں گے ہمیں رائے دینا چاہیں ہم اتنا ہی خوش آمدید کہیں گے۔ میں یہ بھی واضح کردوں کہ قومی سلامتی پالیسی ایک بہت وسیع سبجیکٹ ہے اسکے لئے سو صفحوں کا کتابچہ کافی نہیں قومی سلامتی یا اندرونی سلامتی کے حوالے سے ایک مربوط پالیسی سامنے لانے کے لئے اس پر کتاب در کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔

قومی سلامتی کے بہت سے پہلو ہیں جس میں معاشی سلامتی ‘ اقتصادی سلامتی ‘ سکیورٹی کے حوالے سے ہے قومی سلامتی کے حوالے سے بہت سارے معاملے ہیں اورہر ایک کو ٹارگٹ اور فوکس کرنا سلامتی کا حصہ بنانا وسیع ایریا ہے ہم چاہتے ہیں کہ اپنی غلطیوں اور تجربے سے اسے مربوط بنائیں۔ یہ سو صفحات پر مشتمل ہے اسکی بنیاد ی طو رپر تین حصے ہیں ۔ ایک وہ حصہ ہے جو خفیہ ہے جو روزانہ کی بنیادوں ں پر ،ہفتوں او ر مہینوں کی بنیادوں پر آپریشنل پالیسی ہے او راس حوالے سے حکومت وقت فیصلہ کرتی ہے اور حکومت انٹیلی جنس ایجنسیوں‘سکیورتی اداروں،عوامی رائے اور پارلیمنٹ کے اندر سے ان پٹ لے کر اس میں میں تبدیلی لانی ہوتی ہے اور یہ ایگزیکٹو اختیارات ہیں اسکی تشہیر نہیں کی جا سکتی اور یہ سختی سے خفیہ ہوتی ہے اس ایریا کی بلیک اینڈ وائٹ میں تشہیر نہیں کی جاتی اور اسے ہم خفیہ رکھ رہے ہیں۔

دوسر احصہ سٹریٹچک ہے کہ ہم نے آگے کس طرح بڑھنا ہے ۔ جس طرح 13سال سے معاملات چل رہے ہیں کچھ نہ کرو معاملات چلنے دو ،پاکستان کی سر زمین پر حملہ ہو جائے تو خاموش رہو ،اسلام آباد میں ایک سال میں گیارہ بڑے دہشتگردی کے واقعات ہوئے ، جی ایچ کیو پرحملہ ہو ‘ کامرہ پر حملہ ہو خاموش رہو ‘ کراچی میں مہران بیس پر چھبیس گھنٹے حملہ جاری رہے خاموش رہو اور اس طرح کے دیگر بڑے بڑے واقعات ہوں لیکن تقاریر سے معاملہ چلاتے رہو ۔

لیکن اسکے ساتھ دوسرا آپشن ہے کہ توجہ مرکوز رکھ کر مذاکرات کرو ،تیسرا آپشن ملٹری آپریشنز اس سے معاملات درست کئے جائیں ، ڈائیلاگ کے ساتھ ساتھ جہاں ضرورت پڑے ملٹری آپریشنز بھی کیا جائے ۔ حکومت نے پہلے مرحلے میں چھ ماہ میں ڈائیلاگ کا راستہ اپنایا لیکن تقریباًدو ہفتے سے پالیسی میں تبدیلی آئی کیونکہ ہمارے ڈائیلاگ کے راستے کودوسری اطراف سے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔

ہم صدق دل سے اخلاص سے او رکمٹمنٹ سے مذاکرات مذاکرات اور مذاکرات کرتے رہے ۔ سب سے پہلے جو کمیٹی بنی وہ بنیادی طور پر علماء کی کمیٹی تھی انہوں نے معاملے کو آگے بڑھایا پہلے ڈھائی مہینے ڈائیلاگ خاموشی سے ہوا اور میں نے اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو دو دفعہ بریف کیا لیکن ہم نے اسکی تشہیر نہیں کی مگر پھر ڈرون حملہ ہو گیا اور اسکے نتیجے میں سارے معاملات سبوتاژ ہو گئے ،اسکے بعد مذاکرات زیر زمین چلے اورتحریک طالبان کی قیادت نے صاف انکار کردیا لیکن اس میں باقی گروپس بھی تھے اوروہ بڑے موثر گروپ تھے جنہوں نے آج تک پاکستان کے خلاف کارروائی نہیں کی جن سے بات چیت آگے بڑھائی جا ئی جا سکتی تھی اور معاملات ایک طرف جارہے تھے کہ بنوں کا حملہ ہو گیا اور وہاں اس موقع پر حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بجائے سارے معاملے خفیہ طور پر آگے بڑھائیں ۔

وزیر اعظم نے اس کے بعد عسکری قیادت کو بلا کر یہ فیصلہ کیا کہ جو بھی مذاکرات ہوں گے وہ سامنے اور شفاف ہونے چاہئیں اور سب کو آگاہی ہو کوئی نہ کہے ہمیں علم ہی نہیں ۔ ہم مذاکرات کر رہے ہوں او ردوسری طرف والے کہہ دیں کہ ہمارے ساتھ مذاکرات نہیں ہورہے ۔اسکے بعد کمیٹی بنی اور اس نے 17دنوں تک کام کیا وہ میرے ساتھ قریبی رابطے میں رہے لیکن اس سے بڑھ کر بہت متواتر سے وزیر اعظم کوبریف کرتے رہے اور ان سے رہنمائی بھی لی لیکن کراچی اور ایف سی کے اہلکاروں کے جو سلوک ہوا اسکے بعد حکومت نے فیصلہ کیا اور یہ بنیادی فیصلہ تھا۔

میں تنقید سے نہیں گھبراتا میں رہنمائی کو خوش آمدید کہتا ہوں میں مشاورت کو خوش آمدید کہتا ہوں لیکن جب آپ کسی کے حوالے سے بات کر رہے ہوں تو آپ کو آگاہی ہونی چاہیے ۔کہا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کی کوئی پالیسی نہیں لیکن موجود ہ حکومت نے اے پی سی ‘ ڈائیلاگ کو آگے بڑھایا کیا تیرہ سال ایسی کوئی واضح پالیسی تھی ،اے پی سی اورڈائیلاگ کا راستہ پالیسی کا نتیجہ نہیں تھا ۔

جو بات نہیں کرنا چاہتے تھے ہم نے انہیں علیحدہ کیا اورجو کرنا چاہتے تھے انہیں علحدہ کیا ۔وزیر اعظم نے واضح کیا کہ مذاکرات اور تشدد کی کارروائیاں اکٹھے نہیں چل سکتے لیکن مذاکرات کے ساتھ تشدد کی کارروائیاں بھی چلتی رہیں جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ بہت ہو گیا ، یہ واضح پالیسی نہیں تو کیا ہے لیکن یہاں صرف سیاسی پوائنٹ سکورننگ کی جاتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری عسکری قیادت سے بات ہوئی ،گورنر خیبر پختوانخواہ سمیت کئی سیاسی جماعتوں اور خاص کر خیبر پختوانخواہ حکومت سے بات ہوئی ۔ میں حیران ہوں کہ سینئر وزیر کے پی نے کہا کہ حکومت نے ہمیں تو اعتماد میں ہی نہیں لیا حالانکہ ہم نے پوری قوم کو اعتماد میں لیا اورایک ایک لفظ اوربات چیت کو افشاں کیا گیا مگر سب سے بڑھ کر ایک پارٹی کا نمائندہ لیا گیا وہ کے پی کے حکومت کا تھا ۔

میں نے خود یہاں عمران خان سے اسکی منظوری لی تھی لیکن پھر بھی ہم پر الزام لگا دیا کہ ہم نے اعتماد میں نہیں لیا ۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں مختلف گروپس سے ججو بھی معاہدے ہوئے ان معاہدے بنیادی اڈر سٹینڈنگ تھی کہ پاکستان کے کسی حصے میں کوئی دہشتگردی کی کارروائی ہوتی ہے سکیورٹی ادارے وہیں ان سے نمٹیں گے لیکن موجودہ حکومت نے اس سے شفٹ لیا کہ اگر پاکستان کی کسی کونے میں دہشتگردی کی کارروائی ہوتی ہے تو اس کا رد عمل جو فیصلہ کرتے ہیں انکے ہیڈ کوارٹر پر ہوگا اورچھ سات روز کی کارروائی اسکی عکاسی ہے ۔