مجموعی ملکی پیداوار 5 فیصد بڑھ گئی،تجارتی خسارہ میں 0.6 ارب ڈالراضافہ ہوا،اسٹیٹ بینک ،بیرونی قرضے کی واپسی نئی رقوم سے بدستور متجاوز رہی اور بیرونی سرمایہ کاریاں ابھی تک دور ہیں،سہ ماہی رپورٹ

جمعہ 28 فروری 2014 19:45

مجموعی ملکی پیداوار 5 فیصد بڑھ گئی،تجارتی خسارہ میں 0.6 ارب ڈالراضافہ ..

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28 فروری ۔2014ء)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے معیشت کی کیفیت پر پہلی سہ ماہی رپورٹ برائے مالی سال 2014 جاری کردی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ سال کے آغاز میں معاشی اظہاریے سازگار تھے اس لیے م س 14ء میں حقیقی جی ڈی پی نمو میں کچھ اضافہ دکھائی دیا۔ پہلی سہ ماہی کی نمو کے تخمینے توقعات سے تجاوز کرگئے م س 13ء کی پہلی سہ ماہی کی صرف 2.9 فیصد نمو اور پورے سال کے ہدف 4.4 فیصد کے مقابلے میں م س 14ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران جی ڈی پی نمو 5.0 فیصد رہی۔

صنعت اور خدمات نمو کے اہم محرکات تھے جبکہ زراعت نے ہدف سے کم کارکردگی دکھائی۔صنعتی شعبہ بحال ہوا تو درآمدات کے دباؤ نے پھر سر ابھارا خصوصاً سرمایہ جاتی اشیا اور خام مال کے سلسلے میں۔ خاص طور پر پیٹرولیم، مشینری اور دھات کی درآمد بڑھی رہی جس سے م س 13ء کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں م س 14ء کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 0.6 ارب ڈالر بڑھ گیا۔

(جاری ہے)

جاری کھاتے پر مزید دباؤ م س 14ء کی پہلی سہ ماہی میں اتحادی سپورٹ فنڈ کی رقوم میں تاخیر سے پڑا۔ نتیجتاً م س 14ء کی پہلی سہ ماہی میں جاری کھاتے میں 1.2 ارب ڈالر کا خسارہ درج کیا گیا جبکہ م س 13ء کی پہلی سہ ماہی میں 0.4 ارب ڈالر کا فاضل درج ہوا تھا۔ اگرچہ کارکنوں کی ترسیلاتِ زر میں 9.1 فیصد کی متاثر کن نمو ہوئی تاہم یہ اتنی نہیں کہ دوسری مدوں میں زرمبادلہ کی کمی کا فرق پورا ہوجاتا۔

رپورٹ کے مطابق بیرونی قرضے کی واپسی نئی رقوم سے بدستور متجاوز رہی اور بیرونی سرمایہ کاریاں ابھی تک دور ہیں۔ چنانچہ ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ پڑا اور ان میں دوران سہ ماہی 1.2 ارب ڈالر کی کمی آئی۔ نتیجے کے طور پر م س 14ء کی پہلی سہ ماہی میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 6.0 فیصد کم ہوگئی جبکہ پچھلے سال کی پہلی سہ ماہی میں صرف 0.3 فیصد کم ہوئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ م س 14ء کی پہلی سہ ماہی میں عمومی گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت بڑھ کر 8.1 فیصد ہوگئی جبکہ پچھلی سہ ماہی میں صرف 5.6 فیصد رہی تھی۔ اسٹیٹ بینک نے غذائی گرانی کے دور ثانی کے اثرات کو قابو کرنے، گرانی کی توقعات پر بند باندھنے اور تغیر پذیر روپے کے بعد منڈی کے احساسات کا مقابلہ کرنے کے لیے ستمبر 2013ء میں اعلان کردہ زری پالیسی کے فیصلے میں پالیسی ریٹ 50 بی پی ایس بڑھا کر 9.5 فیصد کردیا۔

رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک سے حکومتی قرض گیری زیادہ نمایاں تھی کیونکہ کمرشل بینکوں نے دوران سہ ماہی منعقد ہونے والی ٹی بل نیلامیوں میں سرگرمی سے حصہ نہیں لیا۔ نتیجتاً حکومت اسٹیٹ بینک سے صفر سہ ماہی قرض گیری کی حد کی شرط پوری نہ کرسکی حالانکہ اس کا قرض آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ حد سے خاصا کم تھا۔م س 14ء کی پہلی سہ ماہی میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 1.1 فیصد تک گر گیا جبکہ گذشتہ برس کی اسی سہ ماہی میں 1.2 فیصد تھا۔

یہ بہتری محاصل اور اخراجات دونوں پہلوؤں سے ہوئی۔ جہاں تک محصولات کا تعلق ہے، دوران سہ ماہی بلند وصولیوں کا سبب ٹیکس کی شرح میں اضافہ تھا، نہ کہ اس کی اساس میں اضافہ۔ غیرٹیکس وصولیاں بھی بعض یکبارگی محاصل کی بنا پر بلند رہیں۔ اخراجات کے حوالے سے م س 13ء میں شرح سود میں کٹوتی کے بعد سودی ادائیگیوں میں کمی بہت مثبت پہلو تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ سرکاری قرضے میں دوران سہ ماہی 10 کھرب روپے کا ریکارڈ اضافہ درج کیا گیا۔

تاہم یہ اضافہ صرف مالیاتی عدم توازن کو ظاہر نہیں کرتا جس میں واجبی اضافہ ہی ہوا تھا۔ یہ اضافہ بنیادی طور پر اس مدت کے دوران شرح مبادلہ کی منفی حرکات کی بنا پر بیرونی قرضے کے اسٹاک میں ہونے والے نوقدرپیمائی کے نقصانات کے باعث ہوا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ملکی قرضے کے خاکہٴ عرصیت کو دوبارہ متوازن کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ واجب الادا ٹی بلز میں سہ ماہی آلات کا بڑھتا ہوا حجم توجہ طلب ہے کیونکہ اس سے مالی نظام شرح سود اور اجرائے ثانی کے خطرات سے دوچار ہوجاتا ہے۔

رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ نمو کی موجودہ رفتار کو برقرار رکھنے اور معیشت کو بلندتر نمو کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے حکومت کو مالیات اور توانائی کے شعبوں میں ساختی اصلاحات کو تیز کرنا چاہیے۔ ان شعبوں پر توجہ مرکوز کرکے حکومت نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اس کی ترجیحات درست ہیں۔ رپورٹ میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ طویل عرصے سے موجود مسائل سے، جنہوں نے نمو کو استعداد سے نیچے رکھا ہوا ہے، پائیدار بنیادوں پر نمٹے۔