قادری جس لیے آئے تھے، انہیں وہ سیاسی فوائد مل گئے

منگل 24 جون 2014 15:42

قادری جس لیے آئے تھے، انہیں وہ سیاسی فوائد مل گئے

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24جون 2014ء) پیر کا دن اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگوں کے لیے واقعات سے بھرپور دن تھا۔ اس روز حکام نے ڈاکٹر طاہر القادری کی حکومت مخالف احتجاج کے منصوبوں کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی، اور یہی کوششیں جوشیلے مذہبی رہنما کے لیے سیاسی فوائد حاصل کرنے کا سبب بن گئیں۔

ایمریٹس کی پرواز جو پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کو اسلام آباد لے کر آرہی تھی، اس کے رُخ کی تبدیلی کا مقصد فیصلہ سازوں کے نزدیک صرف یہی تھا کہ اس سارے ڈرامے کو لاہور منتقل کردیا جائے۔



ان واقعات سے پریشان ہونے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کا ارادہ تھا کہ اسلام آباد ایئرپورٹ سے وہ گاڑیوں کے قافلے کی قیادت کرتے ہوئے اپنی احتجاجی ریلی کو لاہور لے کر جائیں اور مسلم لیگ کی حکومت کی پریشانی یہ تھی کہ اس ریلی کو کیسے روکا جائے۔

(جاری ہے)



حکومت کو قادری کے پیروکاروں سے حقیقی معنوں میں سیکیورٹی خدشات لاحق تھے، جن میں پہلے ہی منہاج القرآن کے باہر پولیس کی کارروائی کی وجہ سے خاصا غم و غصہ موجود تھا، اس کارروائی میں پی اے ٹی کے بارہ کارکن ہلاک ہوئے تھے۔



پی اے ٹی کے کارکنان اسلام آباد ایئرپورٹ کے باہر بڑی تعداد میں اکھٹا تھے، اور بعد میں ان کی پولیس کے ساتھ شدید جھڑپیں بھی ہوئیں۔

مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری شجاعت حسین اپنی پارٹی کے دو رہنماؤں اور سنی اتحاد کونسل فیصل آباد کے صدر مولانا حامد رضا کے ہمراہ اسلام آباد ایئرپورٹ سات بجے صبح پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کا استقبال کرنے پہنچے۔

لیکن انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔

ایک گھنٹے کے بعد مبینہ طور پر وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے اشارہ ملنے پر ان کے لیے ایئرپورٹ کا گیٹ کھول دیا گیا۔

مسلم لیگ ق کے رہنما نے صحافیوں سے کہا ’’میں آپ سے بعد میں بات کروں گا۔‘‘ جنہیں بھی ان کی ہی طرح روک دیا گیا تھا، ٹیلیویژن اینکر مبشر لقمان چوہدری شجاعت کو ان کے درمیان سے نکال کر اندر لے گئے۔



ان کی روانگی کے اشارے نے ڈاکٹر قادری کے پیروکاروں میں امید پیدا کردی کہ ان کے رہنما کا طیارہ جلد ہی لینڈ کرجائے گا، پولیس کی جانب سے فائر کیے جانے والے آنسو گیس کے گولوں نے انہیں بے حال کردیا تھا، اس کے بعد وہ متحرک ہوگئے۔

تاہم وقت نے ثابت کردیا کہ یہ غلط اشارہ تھا، اور ٹی وی چینلوں نے خبردی کہ حکام نے ایمریٹس ایئر لائن کی فلائٹ کو لاہور کی جانب موڑ دیا ہے۔



ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا تھا۔ طیارے کی لینڈنگ کے طے شدہ وقت سے چند منٹ پہلے صبح ساڑھے آٹھ بجے راولپنڈی کی ضلعی انتطامیہ نے مسلم لیگ ق کے رہنماؤں کے ساتھ اس سلسلے میں ایک میٹنگ کی تھی۔

اس عرصے میں پی اے ٹی کے حمایتیوں اور پولیس کے درمیان سڑک پر جاری جھڑپوں میں شدت پیدا ہوگئی تھی۔

لاہور میں سیاسی طور پر نقصان کا سبب بننے والی خونریز کارروائی کے بعد پولیس کو ہتھیار استعمال کرنے کے احکامات نہیں دیے گئے تھے، چنانچہ پی اے ٹی کے کارکنوں نے حملوں کا جواب صرف ڈنڈوں، پتھروں اور آنسوگیس کے ذریعے ہی دیا گیا۔



سٹی پولیس آفیسر ہمایوں بشیر تارڑ جو اس وقت پولیس کی کمانڈ کررہے تھے، لاٹھی بردار پی اے ٹی کے کارکنوں کے ہتھے چڑھ گئے، وہ انہیں گھسیٹ کر لے جارہے تھے کہ ان کے محافظوں نے بچایا۔

وہ انہیں ایئرپورٹ کی عمارت کے اندر لے گئے اور چیف سیکیورٹی آفیسر کے کمرے میں لے جاکر بٹھا دیا۔

ایئرپورٹ کے سامنے سڑک پر جاری ان جھڑپوں میں کبھی شدت آجاتی اور کبھی یہ سُست پڑ جاتی۔

جارحانہ انداز اختیار کیے ہوئے پی اے ٹی کے کارکنوں کا پولیس نے پیچھا کیا، جنہوں نے قریبی سی این جی فلنگ اسٹیشن میں پناہ لےلی، بعد میں قریبی آبادیوں کے رہائشی بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور اس جنگ میں دوبارہ شدت پیدا ہوگئی۔

ایک موقع پر پولیس کو پسپائی پر مجبور ہونا پڑا، جس کی وجہ سے رینجرز کو ایئرپورٹ کے اندر ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کی مدد کے لیے پوزیشنیں سنبھالنی پڑیں۔



ان جھڑپوں میں 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے جن میں ڈی ایس پی شعیب عقیل سمیت پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔

پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے اسپیشل برانچ کے ایک اہلکار کو پکڑ لیا، انہوں نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس کا وائرلیس سیٹ چھین لیا۔

طاہر القادری کے حمایتیوں میں نوجوان، بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھیں، کچھ کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے، جو نہایت ثابت قدم دکھائی دے رہے تھے۔



پی ٹی اے کے سربراہ کا استقبال کرنے کے لیے نجید احمد بھکر سے آئے تھے، انہوں نے ڈان کو بتایا ’’ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہاں پولیس ہے یا رینجرز ہیں۔ ہم ہر قیمت پر وہاں (ایئرپورٹ) جائیں گے۔‘‘

ستائیس پولیس اہلکاروں اور ایک شہری کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال جبکہ تین پولیس آفیسروں اور پانچ شہریوں کو بے نظیر بھٹو ہسپتال لایا گیا۔



ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے ڈاکٹر نے سب انسپکٹر رب نواز اور کانسٹبل نثار کی حالت کو تشویشناک قرار دیا، ان کے سر پر چوٹیں آئی تھیں۔

فضائی مسافر بھی ایئرپورٹ کے اندر یا سڑک پر پھنس کر رہ گئے تھے۔ آنسوگیس کی بھاری مقدار میں شیلنگ سے وہ بھی بہت زیادہ پریشانی میں مبتلا ہوئے۔ جب انہیں اطلاع ملی کی طاہر القادری کے طیارے کا رُخ لاہور کی جا نب موڑ دیا گیا ہے تو انہیں اطمینان محسوس ہوا۔



اس دوران دو مہینے کے ایک بچے کی حالت انتہائی نازک ہوگئی تھی، جب آنسو گیس کا ایک گولہ اس کی والدہ کے نزدیک آکر پھٹ گیا، جو اس کو گود میں اُٹھائے ایئرپورٹ کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران سڑک پر گر گئی تھیں۔

خوش قسمتی سے ایک رینجر اہلکار نے دیکھا کہ یہ ماں اپنے بچے کو گود میں لیے ہوئے لڑکھڑا کر گرپڑی ہے، چنانچہ اس نے ان کی مدد کی اور انہیں ایئرپورٹ کی ڈسپنسری میں لے گیا۔

اس بچے کی ماں کا نام نور تھا، انہوں نے روتے ہوئے بتایا ’’مجھے کراچی جانا تھا، لیکن جب میں پولیس کی بہت سی رکاوٹیں عبور کرتی ہوئی یہاں پہنچی تو مجھے ایئرپورٹ کے اندر نہیں جانے دیا گیا۔‘‘