انقلاب مارچ کے شرکاءکو 6 ہزار روپے دے کر 3 دن کیلئے لایا گیا، اب جانے نہیں دے رہے: بی بی سی

ہفتہ 6 ستمبر 2014 15:08

انقلاب مارچ کے شرکاءکو 6 ہزار روپے دے کر 3 دن کیلئے لایا گیا، اب جانے ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6ستمبر 2014ء) پاکستان عوامی تحریک کا انقلاب مارچ طویل ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر کرائے پر لائے گئے افراد اب اپنے گھروں کو جانے کے منتظر ہیں مگر انہیں گھروں کو جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انقلاب مارچ میں بہاولپور کے نوید جیسے سینکڑوں افراد اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں۔

نوید نے بتایا کہ وہ بہاولپور کے قریب ایک گاﺅں ٹامے والی کا رہائشی ہے اور دسویں جماعت کا طالب علم ہے۔ عوامی تحریک کے مقامی عہدیدار تنویر عباسی نے ہمارے گھر والوں کو بتایا کہ ان کا بیٹا انقلاب مارچ میں شرکت کیلئے اسلام آباد جا رہا ہے اور وہ تین روز کے بعد واپس آ جائے گا۔ نوید کے بقول عوامی تحریک والوں نے ان کے گھر والوں کو چھ ہزار روپے بھی دیئے۔

(جاری ہے)

نوید نے مزید بتایا کہ جو لڑکے پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں زخمی ہوئے ہیں انہیں بھی گھروں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ انہیں قریبی علاقوں میں ہی رکھا ہوا ہے۔ محمد اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ گوجرانوالہ میں لوہیواوالہ بائی پاس اور دیگر نواحی علاقوں میں گزشتہ ماہ لاﺅڈ سپیکر پر اعلانات ہوئے جس میں خواتین کو انقلاب مارچ میں شرکت کی دعوت دی گئی اور کہا گیا کہ اگر خواتین شیر خوار یا دس سال سے کم عمر بچے ساتھ لائیں تو انہیں تین سے پانچ ہزار روپے اضافی دیئے جائیں گے۔

گوجرانوالہ کے نواحی علاقوں جہاں پر اکثر خواتین گھروں میں کام کر کے گزارا کرتی ہیں وہاں سے بھی اطلاعات کے مطابق 100 کے قریب خواتین کو انقلاب مارچ میں لایا گیا ہے اور ان کے گھر والوں کو دس ہزار روپے مہینے کے حساب سے دیئے گئے ہیں۔ ایک لڑکے کے بقول اسے 21 روز اسلام آباد میں ہو گئے ہیں اور جب وہ اپنے عہدیداروں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں تو انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد کے بس سٹینڈ پر ان کے بندے کھڑے ہیں جو گھر جانے کے بجائے تمہیں ”اگلے جہاں“ پہنچا دیں گے اور گھر والوں کو بتا دیں گے کہ وہ پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں مارا گیا۔

عوامی تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات عمر ریاض عباسی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ اس وقت انقلابی دھرنے میں جتنے بھی لوگ بیٹھے ہیں وہ اپنی مرضی سے بیٹھے ہیں اور انہیں نہ تو مجبور کیا گیا اور نہ ہی انہیں کوئی پیسے دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ طاہر القادری کے حکم پر آٹھ سو کے قریب ایسے مظاہرین اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں جن کے امتحانات ہیں یا پھر انہیں نوکری اور کاروبار کے مسائل ہیں۔

متعلقہ عنوان :