ڈاکیارڈ حملہ، دہشت گرد نیوی فریگیٹ ہائی جیک کرنے کے خواہشمند تھے ‘نجی ٹی وی

ہفتہ 13 ستمبر 2014 13:13

ڈاکیارڈ حملہ، دہشت گرد نیوی فریگیٹ ہائی جیک کرنے کے خواہشمند تھے ‘نجی ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13ستمبر۔2014ء) نجی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈاکیار حملے کے دہشت گرد نیوی فریگیٹ ہائی جیک کرنے کے خواہشمند تھے رپورٹ کے مطابق یہ حملہ مکمل طور پر حاضر سروس نیوی اہلکاروں نے ہی کیا جن کا ساتھ ایک سابق نیوی کیڈٹ اویس جاکھرانی نے دیا جسے ڈاکیارڈ کے اندر تک رسائی بغیر کسی مشکل کے مل گئی تھی۔

ایک ذرائع نے بتایا کہ ایسا نظر آتا ہے کہ ان حملہ آوروں کا مقصد پی این ایس ذوالفقار(چین سے 2009 میں خریدے گئے فریگیٹ) کو ہائی جیک کرنا تھا ان ہائی جیکرز کے گروپ کی قیادت ایک سنیئر افسر کررہا تھا جسے جہاز کی گزرگاہ پر محافظوں نے سیلیوٹ بھی کیا تاہم ایک محافظ کو افسر کے ارادوں پر شک گزرا تو اس نے دیگر اہلکاروں کو الرٹ کردیا۔

(جاری ہے)

اس نے مزید بتایا کہ پی این ایس اقبال کے نیول کمانڈوز فوری طور پر وہاں پہنچے اور فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا ایک نیول افسر شہید اور سات زخمی ہوگئے، دو سے تین حملہ آور بھی فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے جن میں سے ایک اویس جاکھرانی تھا جس کے بارے یں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ڈوب گیا تھا اسی طرح چار حملہ آور جہاز کے ایک کمپارٹمنٹ میں چھپ گئے، جہاں انہیں پہلے بند کیا گیا اور بعد میں پکڑ لیا گیا۔

ذرائع کے مطابق بلوچستان کے علاقے مستونگ سے گرفتار ہونے والے تین اہلکاروں سمیت سترہ کے لگ بھگ افراد جو کہ تمام نیوی کے اہلکارتھے، اس حملے میں ملوث تھے۔نجی ٹی وی کے مطابق مشتبہ افراد سے اس وقت ایک فوجی تفتیشی مرکز میں پوچھ گچھ ہورہی ہے۔علاوہ ازیں کمانڈر کامران نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا تھا کہ عسکریت پسند راکٹ لانچرز، اسالٹ رائفلز اور دستی بموں سے مسلح تھے تاہم نجی ٹی وی کے مطابق معلومات ملی ہیں کہ یہ ہتھیار پہلے ہی ڈاکیارڈ میں اسمگل کردیئے گئے تھے اور انہیں ملوث ہلکاروں کے لاکرز میں اسٹور کردیا گیا تھا اس حوالے سے قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ حملہ آور ڈاکیارڈ سمندر کے راستے پہنچے یا انہوں نے ویسٹ وہارف روڈ کو استعمال کیا۔

فشریز ورکرز کے مطابق جب ماہی گیر کھلے سمندر سے واپس بندرگاہ آتے ہوئے ڈاکیارڈ کے پاس سے گزر رہے تھے تو مسلح اہلکاروں سے بھر نیوی کی چار سے پانچ پٹرول بوٹس کے ذریعے ان کی کشتیوں کو چیک کیا گیامگر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک کے علاوہ دیگر حملہ آوروں کو داخلے کیلئے سمندر یا زمینی راستے کی ضرورت نہیں۔ایس ایچ او ڈاکیارڈ سجاد منگی کے مطابق اس دن جب انہیں انتہائی حساس علاقے میں فائرنگ کی معلومات موصول ہوئیں تو وہ صبح نو بجے اپنی ٹیم کے ہمراہ نیول ڈاکیارڈ پہنچے ہم نے دیکھا کہ علاقہ سیکیورٹی اہلکاروں نے سیل کررکھا تھا۔

ایس ایچ او نے بتایا کہ انہوں نے فائرنگ کی آواز دس سے پندرہ منٹ تک سنیں ہمیں بتایا گیا کہ یہ یوم دفاع کی تقریبات کا حصہ ہے اور خطرے کی کوئی بات نہیں۔جب ایس ایچ او سجاد منگی نے سنیئر افسر سے بات کرنیکی درخواست کی تو ان کا رابطہ فون پر کمانڈر محبت خان سے کرادیا گیا جنھوں نے بھی یہی بتایا کہ فائرنگ کی کوئی کاص وجہ نہیں اور انہیں پولیس کی کسی قسم کی معاونت کی ضرورت نہیں اسی دوران سنیئر ایس پی الطاف لغاری بھی موقع پر پہنچ گئے تاہم کمانڈر کی یقین دہانی پر وہ پولیس فورس کے ساتھ واپس پہنچ گئے۔

جب حملے کی خبر سامنے آئی تو کراچی پولیس کے سربراہ غلام قادر تھیبو نے بتایا کہ اویس جاکھرانی کی لاش کو سمندر سے نکالا گیا اور ابتدائی تحقیقات سے عندیہ ملتا ہے کہ کچھ ماہ قبل نیوی کو چھوڑ دینے والا یہ نوجوان حملہ آوروں میں سے ایک ہے، تاہم گولی کا زخم نہ ہونے سے لگتا ہے کہ یہ ڈوب گیا تھا۔انہوں نے کہاکہ واقعہ کی کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی تو مزید تفتیش کیسے کی جاسکتی ہے؟ قوانین کے مطابق جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے چاہے فوجی تنصیبات کے اندر ہی کیوں نہ ہو، اس کی ایف آئی آر درج کرانا لازمی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مقدمہ درج نہ کرانے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 31 ہزار اہلکاروں پر مشتمل فوج کی برانچ نیوی اس معاملے کی تفتیش کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھ کر سویلین ایجنسیوں کے ساتھ ریکارڈ شیئر نہیں کرنا چاہتی پولیس ذرائع کے مطابق آٹھ ستمبر کو ایک گمنام شخص کی لاش ہمیں دی گئی جو کہ کئی حصوں میں تقسیم تھی۔ذرائع نے بتایا کہ انہوں نے دیگر دیگر لاشوں کے ہمراہ اس گمنام لاش کو بھی ایدھی میت خانے کو اسی روز شام ساڑھے پانچ بجے بھیج دیا تھا۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان انور کاظمی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اگلے روز صبح ساڑھے گیارہ بجے جاکھرانی کے خاندان نے لاش کے ٹکڑے ہم سے وصول کیے۔سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ دو روز تک دانستہ طور پر اس واقعے کو چھپائے رکھنا قابل فہم ہے سٹیزن پولیس لائڑن کمیٹی کے سربراہ احمد چنائے نے بتایاکہ ایسا بالکل ممکن ہے کیونکہ مئی 2011 میں مہران نیول بیس پر ہونے والے حملے کے برخلاف ڈاکیارڈ میں ہونے والا حملہ اس علاقے کے بہت اندر ہوا تھا جہاں آسانی تک رسائی حاصل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیوی کو ہوسکتا ہے کہ گرفتار کیے گئے چار عسکریت پسندوں سے اہم معلومات حاصل ہوئی ہے اور وہ اس کے مطابق پیشرفت کرنا چاہتی ہو۔طالبان ترجمان نے دعویٰ کیا کہ عسکریت پسندوں نے اندرونی مدد کے ذریعے کامیابی سے سیکیورٹی علاقے میں رسائی حاصل کی اور ٹی ٹی پی سیکیورٹی فورسز کو ہدف بنانا جاری رکھے گی۔دعویٰ میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے جو اس میں براہ راست ملوث تھے وہ یا تو مارے گئے یا انہیں اس کے فوری بعد گرفتار کرلیا گیااحمد چنائے نے کہاکہ میرے خیال میں باہر بیٹھے عسکریت پسندوں کو خود معلوم نہیں تھا کہ آخر وہاں ہوا کیا ہے، کیا حملہ آور کچھ کرسکے ہیں یا نہیں۔

متعلقہ عنوان :