چینی صدر کا دورہ بھارت مکمل ہوتے ہی لداخ میں چینی افواج کی دراندازی کی خبریں، دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی صداقت پر سوالات کھڑے کردئیے ہیں،دونوں ملکوں نے اقتصادی و تجارتی تعلقات کو فروغ دینے اور باہمی رشتوں کو مزید مستحکم کرنے کے کئی معاہدے کئے لیکن دورے کے دوران ہی لداخ میں چینی افواج کی دراندازی کی خبریں بھی سامنے آئیں، سرحدی تنازعہ کا سوال ایک بار پھر ابھر کر سامنے آگیا

ہفتہ 20 ستمبر 2014 21:55

چینی صدر کا دورہ بھارت مکمل ہوتے ہی لداخ میں چینی افواج کی دراندازی ..

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20ستمبر 2014ء) چین کے صدر شی جن پنگ کا دورہ بھارت مکمل ہوتے ہی لداخ میں چینی افواج کی دراندازی کی خبروں نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی صداقت پر سوالات کھڑے کردئیے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ بھارت کا تین روزہ دورہ مکمل کرکے نئی دہلی سے روانہ ہوچکے ہیں۔ اس دوران دونوں ملکوں نے اقتصادی و تجارتی تعلقات کو فروغ دینے اور باہمی رشتوں کو مزید مستحکم کرنے کے کئی معاہدے کئے لیکن دورے کے دوران ہی لداخ میں چینی افواج کی دراندازی کی خبریں بھی سامنے آئیں۔

براعظم ایشیا کی دو عظیم طاقتوں کے رہنما جس وقت باہمی رشتوں کو مستحکم کرنے اور اسے نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے معاہدوں پر دستخط کررہے تھے ، ان خبروں نے سب کو حیرت زدہ کردیا کہ تقریبا ایک ہزار چینی فوجی بھارت کے سرحدی علاقہ مشرقی لداخ کے چومار میں پانچ کلومیٹر تک اند ر داخل ہوچکے ہیں اور دوسری طرف بھارتی شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں صف آرا ہوگئی ہے۔

(جاری ہے)

اس خبر کے سامنے آتے ہی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم نریندر مودی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں سرحدی تنازعہ کا سوال ایک بار پھر ابھر کر سامنے آگیا۔وزیر اعظم نریندر مودی نے ساز گار تعلقات کے لیے باہمی اعتماد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کو تمام پہلووٴں سے سود مند بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سرحد پر امن قائم ہو۔

انہوں نے چین کی طرف سے دراندازی کے مسلسل واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے یہ تجویز بھی پیش کی کہ سرحدی معاملات کو جلد از جلد حل کرلیا جائے تاکہ امن و سکون کا ماحول برقرار رہے۔ دوسری طرف چینی صدر نے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے نے انہیں پریشان کررکھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرحدی لائن طے نہیں ہے اور اس کا تعین کیا جانا باقی ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوجاتا ہے دراندازی کے واقعات کے خدشات برقرار رہیں گے۔

خیال رہے کہ بھارت اور چین کے مابین 2200 میل کی سرحد ملتی ہے جس میں سے بیشتر علاقہ متنازعہ ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کی بڑی وجہ حقیقی کنٹرول لائن کا نہ ہونا ہے۔ادھر بھارتی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال اگست کے اوائل تک چین کی جانب سے بھارت میں دراندازی کے 400سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت اور چین کے رشتے ہمیشہ پیچیدہ رہے ہیں۔

حالانکہ 1962 کے بعد سے دونوں ملکوں میں کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے لیکن سرحد پر کشیدگی کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ برس بھی جب چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ بھارت کے دورے پر آئے تھے اس وقت بھی چینی فوجیں لداخ میں داخل ہوگئی تھیں۔اس پیش رفت کے حوالے سے اسٹریٹیجک امور کے ماہر راجیو شرما نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان تین بڑے تنازعات ہیں۔

سرحد کا تنازعہ ، اسٹیپل ویزا کا تنازعہ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقوں میں چینی فوجیوں کی موجودگی۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی بھارت ان فوجیوں کی موجودگی کا سبب معلوم کرتا ہے تو چینی حکام کہتے ہیں کہ وہ تعمیراتی کام کررہے ہیں۔ راجیو شرما کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں میں اعتماد کا فقدان برقرار ہے۔اس کا واضح ثبوث یہ ہے کہ جس وقت چینی صدر بھارتی وزیر اعظم سے بات کررہے تھے، اس وقت چینی فوجیں چومار میں موجود تھیں ، حالانکہ بعد میں وہ واپس چلی گئیں تاہم بھارتی علاقے میں دو مقامات پر وہ اب بھی موجود ہیں، جہاں انہوں نے اپنے خیمے لگا رکھے ہیں۔

اس دوران بھارت اور چین نے مجموعی طور پر 13معاہدوں پر دستخط کیے۔ چین نے بھارت میں اگلے پانچ برسوں تک 20بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا۔ کچھ عرصہ قبل جاپان نے بھارت میں 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چین نے تبت میں واقع کیلاش پربت میں ہندووٴں کے مقدس مذہبی مقام کیلاش مانسرور تک ناتھو لا درے کے راستے سے جانے کی اجازت دے دی ہے۔ دونوں ملکوں نے سول جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون پر بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

متعلقہ عنوان :