سعودی لڑکیوں کے والدین کے خلاف مقدمات

منگل 30 ستمبر 2014 16:12

سعودی لڑکیوں کے والدین کے خلاف مقدمات

جدہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30ستمبر 2014ء) سعودی وزارتِ انصاف کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعدادوشمار کے حوالےسے مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی خواتین نے اپنے سرپرستوں کے خلاف 383 مقدمات دائر کیے ہیں، اس لیے کہ ان کے سرپرستوں نے انہیں مرضی سے شادی کا حق دینے سے انکار کردیا تھا۔ پورے سعودی عرب میں اس طرح کے مقدمات کی تعداد ریاض میں سب سے زیادہ ہے، یہاں سے 95 مقدمات دائر کیے گئے، اس کے بعد جدہ ہے، جہاں 81 مقدمات، مکہ میں 65 مقدمات، دمّام میں 31 مقدمات اور مدینہ میں 20مقدمات دائر کیے گئے۔



عرب نیوز کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ان مقدمات میں سے زیادہ تر میں سعودی عرب میں شروع کی گئی سماجی اصلاحات کا کبھی شکریہ ادا نہیں کیا گیا۔ الاحساء اور أبھا میں دس دس مقدمات، طائف میں نو، قطیف میں آٹھ، بریدہ اور الخبر میں سات سات، تبوک اور الخرج میں پانچ پانچ، سکاکا، حیل، اونیزہ اور جازان میں چار چار، خمیس مشایت اور صبایا میں تین تین، یانبو اور راس الخیر میں دو دو، اور نجران، جبیل، دریہ اور آرر میں ایک ایک مقدمات دائر کیے گئے۔

(جاری ہے)

سعودی عرب کی نیشنل سوسائٹی برائے انسانی حقوق (این ایس ایچ آر) نے اس طرح کے مقدمات کو انسانی اسمگلنگ کے مسائل کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

اس سوسائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے لوگ جو اپنی بیٹیوں کو شادی کا حق دینے کے مرتکب پائے جائیں، ان پر جرمانہ عائد کیا جائے۔عرب نیوز کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ نومبر 2011ء میں دیے گئے ایک فیصلے کے مطابق ایسے مجرموں کو پندرہ سال قید اور دس لاکھ سعودی ریال کا جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔



اسی حوالے سے ایک وکیل خالد المطیری کا کہنا ہے کہ کوئی بھی لڑکی اسلامی قوانین اور دیگر دفعات کے مطابق ایک کیس دائر کرنے کا حق رکھتی ہے۔

خالد المطیری نے کئی عوامل کو اس طرح کے مقدمات کا سبب قرار دیا اور کہا کہ اس میں والدین کی اپنے بیٹیوں کے فیصلوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے خواہش بھی شامل ہے،جس کی مالی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں یا وہ ان کی طلاقوں کا انتقام لینا چاہتے ہیں۔