تیز رفتار دْم دار ستارہ مریخ کی طرف بڑھنے لگا ، ناسا

جمعہ 17 اکتوبر 2014 14:41

تیز رفتار دْم دار ستارہ مریخ کی طرف بڑھنے لگا ، ناسا

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17 اکتوبر۔2014ء)دس لاکھ برسوں میں پہلی بار سرخ سیارے، یعنی مریخ کے نزدیک سے ایک دْم دار ستارہ گزرنے والا ہے۔ اس ”کومٹ“ کی تصاویر امریکی خلائی ادرے ناسا کے خلائی جہاز کے ذریعے بنائی گئی ہیں۔جرمن خبررساں ادارے کے مطابق اس کومٹ کو ”سائیڈنگ اسپرنگ“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا قطر قریب ایک میل یا ایک اعشاریہ چھ کلومیٹر کے لگ بھگ ہے، تاہم یہ پختگی میں ٹیلکم پاوٴڈر سے زیادہ ٹھوس نہیں ہے۔

یہ کومٹ مریخ کے انتہائی قریب، یعنی اٹھاسی ہزار میل کے فاصلے سے گزرے گا۔یہ کومٹ مریخ کے کتنے قریب سے گزرے گا، اس بات کا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ”سائیڈنگ اسپرنگ“ زمین کے پاس سے ہو کر گزرتا تو اس کا فاصلہ زمین اور چاند کے درمیانی فاصلے کا ایک تہائی ہوتا۔

(جاری ہے)

ناسا کے مطابق یہ کومٹ اتوار، انیس اکتوبر کے روز امریکی وقت کے مطابق دو پہر دو بج کر ستائیس منٹ پر مریخ کے قریب ترین ہوگا۔

”سائیڈنگ اسپرنگ“ ایک لاکھ بائیس ہزار چار سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے راستے پر گامزن ہے، تاہم اس کے مریخ سے ٹکرانے کے امکانات بہت کم ہیں۔سائنس دان، بہر حال ”سائیڈنگ اسپرنگ“ کے راستے اور اس کی حرکت کے مطالعے میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے ناسا کے واشنگٹن میں واقع مرکز کے ”پلانیٹری سائنس ڈویڑن“ کے ڈائریکٹر جِم گرین کا کہنا ہے، ”دْم دار ستاروں کے بارے میں پہلے سے کچھ کہنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔

اس بات کا امکان نہیں کہ یہ کومٹ تباہ ہو جائے گا، مگر کیا یہ اپنا ڈھانچہ برقرار رکھ پائے گا؟ ہمیں یہ جاننے میں دلچسپی ہے۔“ناسا نے مریخ کے مطالعے کے لیے جو مشن اس سرخ سیارے کے قریب چھوڑے ہوئے ہیں، انہیں اس نے مریخ کی دوسری سمت پر متعین کر دیا ہے تاکہ کامیٹ سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔ ناسا کے ماہرین کو بہر حال یہ امید ہے کہ ان خلائی جہازوں کو مریخ سے دور لے جانے کے باوجود وہ اس دْم دار ستارے کے بارے ڈیٹا اکھٹا کر پائیں گے۔

مریخ کی سطح پر موجود ناسا کی ”کیوریوسٹی“ اور ”آپرچونیٹی“ نامی روبوٹک گاڑیاں اپنے کیمروں سے اس کومٹ کی تصاویر اتاریں گی جو آئندہ دنوں، ہفتوں اور مہینوں تک موصول ہوتی رہیں گی۔واضح رہے کہ یہ دْم دار ستارہ کروڑوں سال پرانا ہے اور اسے جنوری سن دو ہزار تیرہ میں آسٹریلیا کی ”سائیڈنگ اسپرنگ آبزرویٹری“ کے رابرٹ میک ناٹ نے دریافت کیا تھا۔