مسلم کمیونٹی کی کڑی تنقید ، آسٹریلیا میں برقعہ پوش خواتین کو پارلیمنٹ ہاوٴس میں علیحدہ بٹھانے کا منصوبہ ترک کر دیا گیا

پیر 20 اکتوبر 2014 12:38

مسلم کمیونٹی کی کڑی تنقید ، آسٹریلیا میں برقعہ پوش خواتین کو پارلیمنٹ ..

سڈ نی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20 اکتوبر۔2014ء) آسٹریلیا میں برقعہ پہننے یا نقاب اوڑھنے والی خواتین کو پارلیمنٹ ہاوٴس میں علیحدہ بٹھانے کا ایک متنازعہ منصوبہ ترک کر دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں اور مسلم کمیو نٹی نے اس منصوبے پر سخت تنقید کی تھی۔ غیر ملکی خبر رسا ں ادارے کے مطا بق اس منصوبے کے تحت برقعے میں ملبوس یا نقاب اوڑھنے والی خواتین کو پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھنے والوں کے لیے مخصوص ایک علیحدہ حصے میں بٹھایا جانا مقصود تھا۔

تاہم شدید مخالفت کے بعد یہ منصوبہ واپس لینے کا اعلان کر دیا گیا۔پارلیمنٹ کے اسپیکر برونوین بشپ اور سینیٹ کے صدر اسٹیفن پیری نے دو اکتوبر کو فیصلہ کیا تھا کہ ایسی خواتین کو شیشے لگے ان حصوں میں علیحدہ بٹھایا جائے گا جو عام طور پر پارلیمنٹ کے دورے کے لیے آنے والے اسکول کے بچوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں تاکہ ان کے شور سے پارلیمنٹ کی کارروائی متاثر نہ ہو۔

(جاری ہے)

یہ فیصلہ اسلامی ریاست گروہ کے ابھرنے کے بعد ممکنہ سکیورٹی خدشات پر ہونے والی بحث کے نتیجے میں کیا گیا تھا۔

تاہم ہیومن رائٹس اور نسلی امتیاز کے گروپوں نے اس فیصلے کی مذمت کی تھی۔ فرا نسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق کمشنر برائے نسلی امتیاز ٹِم ساوٴتفوماسانے نے فیئرفیکس میڈیا کو بتایا کہ اصلی فیصلے کے مطابق مسلمان خواتین سے دوسری خواتین کے مقابلے میں الگ طریقے سے پیش آیا جاتا۔

انہوں نے کہا: ”کسی سے بھی دوسرے درجے کے شہری کے طور سلوک نہیں کیا جا سکتا، کم از کم پارلیمنٹ میں نہیں۔“ساوٴتفوماسانے نے مزید کہا: ”میں نے آج کے دِن تک کوئی ایسا تجزیہ یا رائے نہیں دیکھی جس سے یہ پتہ چلا کہ برقعے یا نقاب سے کوئی اضافی یا خصوصی سکیورٹی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔لیبر پارٹی کے ٹونی برک نے یہ فیصلہ واپس لیے جانے کا خیرمقدم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا فیصلہ کبھی کیا ہی نہیں جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا: ”انہیں کس بات نے ایسا سوچنے پر مجبور کیا کہ علیحدگی کا یہ خیال اچھا ہے۔دوسری جانب محکمہ برائے پارلیمانی سروسز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ضوابط تبدیل کر دیے گئے ہیں، پارلیمنٹ کا دورہ کرنے والے تمام افراد کو شناخت کے لیے عارضی طور پر چہرہ دکھانا ہو گا۔اس بیان میں مزید کہا گیا ہے: ”اس سے سکیورٹی اسٹاف کسی بھی ایسے شخص کی شناخت کر سکے گا جس کے پارلیمنٹ میں داخلے پر پابندی ہو یا جسے سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہو۔محکمہ برائے پارلیمانی سروسز کے مطابق شناخت کا عمل پورا ہونے پر وزیٹرز کو پارلیمنٹ کی عمارت کے ان حصوں میں جانے کی اجازت ہو گی جو عوام کے لیے کھلے ہوں۔

متعلقہ عنوان :