آپریشن ضرب عضب کا اگلا ہدف وادی شوال ہوگا ‘ پاکستانی حکام

پیر 20 اکتوبر 2014 15:00

آپریشن ضرب عضب کا اگلا ہدف وادی شوال ہوگا ‘ پاکستانی حکام

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20 اکتوبر۔2014ء) پاکستانی سفارتخانے کے سینئر حکام نے کہاہے کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی میں مصروف مسلح افواج کا اگلا ہدف وادی شوال ہے۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے اختتام پر واشنگٹن میں پہلی مرتبہ پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی کیلئے ایک کنونشن کی پاکستانی سفارتخانے نے میزبانی کی اور انہیں پاکستان کو درپیش مختلف مسائل سے آگاہ کیا۔

حکام نے پاکستانیوں کو بتایا کہ حکومت دیگر تمام کوششوں کی ناکامی کے بعد فوجی آپریشن ضربِ عضب شروع کرنے پر مجبور ہوئی تھی پھر بھی حکومت نے آپریشن شروع کرنے سے قبل ملک کی تمام سیاسی قوتوں سے مشاورت کی تھی۔انہوں نے کہاکہ عسکریت پسند کبھی بھی مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھے، یہاں تک کہ انہوں نے حکومت کیساتھ مذاکرات کے دوران بھی ملک بھی میں فوجی اور سویلین دونوں اہداف پر حملے جاری رکھے ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

ان میں سے ایک عہدے دار نے بتایا کہ ہم اس کے منفی نتائج کے بارے میں فکرمند تھے تاہم ملک بھر سے یہ فیصلہ سامنے آیا کہ ریاست کی عملداری کو بحال کیا جائے اور یوں یہ آپریشن شروع کیا گیا۔“ایک اور عہدے دار نے نشاندہی کی کہ منفی نتائج کا خدشہ ایسا اہم نہ تھا، اس لیے کہ ہماری مربوط کوششوں نے انہیں جوابی کارروائی کا موقع ہی نہیں دیا۔مذکورہ عہدے دار نے شہریوں کواس بات سے بھی آگاہ کیا کہ پولیس، رینجرز، آئی بی، آئی ایس آئی اور مسلح افواج سمیت تمام سیکورٹی ایجنسیاں عسکریت پسندوں کے خاتمے کیلئے کی جانے والی کوششوں میں حصہ لے رہی ہیں۔

سفارتخانے کے ایک اور اہلکار نے کہا کہ ”گوکہ ہماری اہم کوششوں کا مرکز شمالی وزیرستان ہے اس کے علاوہ سیکورٹی ایجنسیاں کراچی سمیت ملک بھر میں عسکریت پسندوں کا مقابلہ کررہی ہیں۔“انہوں نے کہا کہ ”ہم نے ان کی پناہ گاہوں اور ان کے ہمدردوں بے اثر کرکے ان کی جوابی کارروائی کیلئے کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے۔“پاکستانی سفارتخانے کے حکام نے وضاحت کی کہ شمالی وزیرستان میں چھپے ہوئے عسکریت پسند چار سمتوں میں فرار ہوگئے، ایک تو اس علاقے میں ہی روپوش ہوگئے، جہاں آپریشن کیا جارہا ہے، دوسرے دیگر قبائلی علاقوں میں، تیسرے ملک کے بڑے شہروں میں اور چوتھی سمت افغانستان ہے، جہاں یہ لوگ فرار ہوئے۔

ان میں سے ایک عہدے دار نے بتایا کہ ”مسلح افواج نے عسکریت پسندوں کو اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے تاہم کچھ اب بھی وادی شوال میں روپوش ہیں، لہٰذا ہمارا ارادہ ہے کہ اس سال دسمبر سے پہلے اس وادی میں داخل ہوں اور ان کی پناہ گاہوں کو تباہ کردیں۔“انہوں نے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ مسلح افواج کو حقانی نیٹ ورک جیسے بعض گروپس کو نشانہ نہ بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔

انہووں نے کاکہ ”یہ عسکریت پسندوں کے خلاف ایک جنگ ہے جس میں تمام گروپس بشمول حقانی نیٹ ورک، پنجابی طالبان اور دیگر کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جنہوں نے ہتھیار ڈال دیے انہیں گرفتار کرلیا گیا، اور جنہوں نے لڑائی جاری رکھی وہ مارے گئے۔“تاہم مذکورہ عہدے دار نے نشاندہی کی کہ سیاسی اتفاقِ رائے کے حصول میں کچھ مہینہ لگ گیا جس کے دوران کچھ عسکریت پسند محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس طرف بھی جارہے ہیں اور افغانستان سے درخواست کی ہے کہ ان لوگوں کو پکڑا جائے جو وہاں روپوش ہوگئے ہیں۔“پاکستانی سفارتکار نے بتایا کہ حکومت نے آپریشن شروع ہونے سے پہلے امریکا سے دو درجن بکتر بند گاڑیاں حاصل کی تھیں اور مزید دو سو گاڑیوں کے حصول کی کوشش کررہی ہے۔امریکامیں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ حکومت کا اس سال کے بعد اسلام آباد میں ایک ڈونرز کانفرنس کے انعقاد کا ارادہ ہے، تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی ضروریات کیا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے فوری اور سب سے زیادہ ضروری کام بے گھر افراد کی دوبارہ آبادکاری ہے آپریشن کے فوجی اخراجات سے نمٹنے کیلئے بھی ملک کو کچھ امداد کی ضرورت ہے۔پاکستانی سفیر نے کہا کہ ملک کو اس مقصد کیلئے کم از کم 2.5 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے اور ہم امید کررہے ہیں کہ امریکا سمیت دوست ممالک اس میں حصہ لیں گے۔سفارتخانے کے ایک دوسرے عہدے دار نے بتایا کہ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی کہ یہ عسکریت پسند بے گھر افراد کے ساتھ قبائلی علاقوں میں واپس نہ آجائیں۔

انہوں نے کہا کہ سویلین اور فوجی دونوں انٹیلی جنس ادارے اس کام میں مصروف ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہم انہیں واپس لوٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یاد رکھیں کہ ہمارے ہزاروں عوام اور فوجی عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی میں شہید ہوئے ہیں، چنانچہ ہمیں ان عسکریت پسندوں سے کوئی ہمدردی نہیں ۔

متعلقہ عنوان :