کینیڈا میں دہشت گردی ، مسلمانوں کا تاثر ابتر ہونے کا خدشہ ہے، مبصرین

ہفتہ 25 اکتوبر 2014 13:49

کینیڈا میں دہشت گردی ، مسلمانوں کا تاثر ابتر ہونے کا خدشہ ہے، مبصرین

اوٹاوا(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔25 اکتوبر۔2014ء) اوٹاوا میں دہشت گردانہ حملے نے کینیڈا کو صرف ہلا کر ہی نہیں رکھ دیا بلکہ یہ کثیر النسلی کینیڈین معاشرے کو بدل بھی سکتا ہے۔ لیکن وہ سوالات جن کا اس وقت کینیڈا کو سامنا ہے ، انہی کا سامنا اب یورپ کو بھی کرنا ہوگا۔جرمن خبررساں ادارے کے مطابق کینیڈا میں یہ دہشت گردانہ حملہ ایک دوہرا حملہ تھا جو رقبے کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک پر کیا گیا۔

اس سے پہلے ایسی کوششیں ناکام رہی تھیں ، تا ہم حالیہ چند روز میں ان حملوں نے کینیڈا کو بھی ایک ایسی جگہ بنا دیا ہے جہاں عالمی سطح پر دہشت گردی کے مقابلے کی جدوجہد جاری ہے۔ جرمنی کے شہر ٹریئر کی یونیورسٹی میں بین الاقوامی تاریخ کی خاتون پروفیسر ارزولا لیہم کوہل کہتی ہیں کہ کینیڈین قوم کو سب سے بڑا دھچکا اس بات سے لگا کہ مانٹریال میں تو ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے ، لیکن اوٹاوا تو ایک چھوٹا سا خوابیدہ شہر ہے۔

(جاری ہے)

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشنز کے کینیڈین نڑاد پروفیسر نیل میکفارلین کے مطابق انہیں یقین ہے کہ ان حملوں کے سیاسی نتائج سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی۔ پروفیسر میکفارلین کے بقول اب ایسے منظم گروپوں کے لیے ، جنہیں کسی بھی حوالے سے القاعدہ یا اسلامک سٹیٹ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ شناخت کیا جا سکے گا ، حالات اور بھی مشکل بنا دیے جائیں گے۔

لیکن ممکنہ دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے عوامی زندگی میں زیادہ نگرانی کے عمل کا لازمی اثر اس کینیڈین معاشرے پر بھی پڑے گا ، جسے ”کثیر الثقافتی، کثیرالنسلی قوس قزح“ کا نام دیا جاتا ہے۔ کینیڈا کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 3.2 فیصد ہے ، جن کی بہت بڑی اکثریت پرامن اور محب وطن ہے۔ ان حملوں کے بعد وہاں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں عمومی تاثر میں مزید ابتری کا بھی شدید خطرہ ہے۔

متعلقہ عنوان :