کوٹ رادھا کشن میں میاں بیوی کو زندہ جلائے جا نے کی اصل کہانی سامنے آگئی

جمعرات 6 نومبر 2014 12:43

کوٹ رادھا کشن میں میاں بیوی کو زندہ جلائے جا نے کی اصل کہانی سامنے آگئی

قصور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6نومبر 2014ء)قصور کے نواحی گاﺅں کوٹ رادھا کشن میں بھٹہ مالک کی جانب سے زیر حراست مسیحی میاں بیوی کودہکتے ہوئے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا کرموت کے گھاٹ اتارے جانے کی اصل کہانی سامنے آگئی ہے ،بھٹہ مالک نے کام چھوڑنے کی پاداش میں مقتول میاں بیوی کوچند روز قبل واپسی کیلئے بلوایا اور ایڈوانس لی گئی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتا رہا ،رقم نہ ملنے پربھٹہ مالک نے مقتولین پر الزام لگایا کہ انہوں نے قرآن پاک کے اوراق جلائے ہیں،بعد ازاںمقامی مساجد میں فجر کی نماز کے بعد اعلانات کرائے گئے جسکے بعد حالات کشیدہ ہو گئے ، مقامی پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی لیکن بھٹہ مالک نے قید میں رکھے گئے ملازم شہزاد مسیح اور اسکی بیوی شمع بی بی کو ساتھیوں کی مدد تشد د کے بعد گھسیٹ کر بھٹہ میں پھینک کرلاشیں جلا کر راکھ کر دیں، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے واقعہ میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے انکوائری ٹیم تشکیل دے دی ہے۔

(جاری ہے)


تفصیلات کے مطابق قصور کے نواحی گاﺅں کوٹ رادھا کشن کے چک نمبر59میں واقعہ یوسف گجر کے بھٹے پر مارے جانیوالے میاںبیوی میںدیگر بھٹہ مزدوروں کی طرح بھٹہ کے مالک یوسف گجر سے ڈیڑھ لاکھ روپے ایڈوانس لے رکھے تھے اور یہ یرغمالیوں کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہاتھے۔ یہ خاندان بھٹہ خشت کے قریب ہی ایک خستہ حال مکان میں اپنے چار بچوں کے ہمراہ مقیم تھا۔

شمع بی بی کا والداپنے علاقے میں تعویز گنڈاکرتا تھا اور چند روز قبل جب اس کی وفات ہوئی تو شہزاد اور شمع نے مرنےوالے کی آخری رسومات میں شرکت کےلئے بھٹہ مالک اور اس کے منشیوں سے اجازت مانگی مگر انہوںنے میاںبیوی کو جانے کی اجازت دینے سے سختی سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ اس طرح ان کا مقروض یہ جوڑا فرار بھی ہوسکتا ہے اسی بنا پر مالک کے حکم پر منشیوںنے مسیح میاں بیوی کی کڑی نگرانی شروع کردی اور بعد ازاں انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا، باپ کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرنے پر شمع بی بی اور شہزاد کا منشیوں سے جھگڑا بھی ہوا۔


حیران کن امر یہ ہے کہ ایف آئی آر میں ایسے کسی شخص کا ذکر نہیں ہے کہ جس نے شمع یا اس کے خاوند کو مقدس اوراق کی بے حرمتی کرتے دیکھا ہو یا پھر ایسے مقدس اوراق کا کوئی ادھ جلا حصہ یا ٹکڑا پولیس کواس کچرے سے ملا ہو جسکے متعلق یہ کہاجاتا ہے کہ شمع بی بی نے مقدس اوراق جلانے کے بعد انہیں کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا۔ مقامی پولیس کے مطابق بھٹہ مالک یا اسکے منشیوںکو اس قدر شدید رد عمل کا قطعی اندازہ نہیںتھا کیونکہ جیسے ہی یہ افواہ پھیلی تو چک نمبر59 کے علاوہ دیگر تین دیہات کی مساجد میں اعلانات کر دیے گئے کہ ایک جوڑے نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی ہے اور وہ اس وقت بھٹہ خشت پر موجودہیں،تو 800کے قریب افرادنے اکٹھے ہو کر بھٹہ خشت پر دھاوا بول دیا ، مشتعل افراد دونوںمیاںبیوی کو کمرے سے نکالنے کےلئے چھت توڑنے لگے تو منشیوںنے ڈر کے مارے دروازہ کھول کر میاں بیوی کو ان کے سپرد کردیا ،غصے سے بپھرے ہوئے ہجوم نے میاں بیوی کو مار مار کر ادھ مواہ کر دیا اور بعد ازاں دونوںکو بھٹہ خشت کی ایک بھٹی کھول کر اندر پھینک دیا جو چند منٹو ں میں ہی جل کر راکھ ہوگئے۔

مقامی افراد کے مطاقب جب ایک شہری نے 15 پر پولیس کو لوگوں کے ہجوم اور اشتعال کے متعلق آگاہ کیا تو چوکی انچارج محض اپنے چند ساتھی لیکر ہی وقوعہ پر پہنچا اور لوگوںکا اتنا بڑا ہجوم اور غم وغصہ دیکھ کر غائب ہوگیا ،اس افسوسناک واقعے کے قریباًایک گھنٹہ بعد وہاں پرپولیس پہنچی جس کی تصدیق ایک تفتیشی پولیس افسر نے یہ کہتے ہوئے کی کہ دس محرم کے روز کیونکہ پولیس کو کئی جگہ ڈیوٹی دینا ہوتی ہے اس لیے ہمارے پاس مناسب تعداد میں نفری نہیں تھی جو بروقت پہنچ کر اس واقعہ کو ہونے سے روک سکتی۔


ایک اور گاﺅں کے رہائشیوں نے مقامی اخبا ر کو بتایا کہ یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے اگر میاں بیوی قصوروار بھی تھے تو انہیں پولیس کے حوالے کرکے عدالتوں سے سزا دلوائی دی جاتی ، یہ قتل مذہب کی آڑ میں کیے گئے ہیںاس میں ملوث ملزمان کو سخت سزا ملنی چاہیے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والے میاں بیوی کے بھائی شہباز کے گھر صف ماتم بچھی ہوئی تھی اور افسوس کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

وہاں پر موجود خواتین نے بتایاکہ مسیحی برادری کبھی بھی مقدس اوراق کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ مقتولین کو محض چند ہزار روپے کی خاطر الزام لگا کر بھٹہ مالکان نے زندہ جلا کر راکھ کر دیا ہے جو کہ کھلی بربریت اور ظلم کی انتہا ہے۔ حکمرانوں کو انصاف کرتے ہوئے ملوث ملزمان کو سر عام پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

ہلاک ہونے والی خاتون شمع کے والدچند روز قبل وفات پا گئے تھے اور انہوں نے ایک صندوق بھی چھوڑا تھا جو کہ شمع اٹھا کر بھٹہ پر لے گئی اور اس نے صندوق میں موجود قرآن پاک اور بائبل کو سنبھال کر اونچی جگہ پر رکھ دیا تھا ۔گاﺅں والوں کے مطابق منشی افضل نے بھٹہ مالک یوسف گجر کے ساتھ مل کر ایسی چال چلی کہ جو لوگوں کو سمجھ نہ آ سکی اور انہوں نے جذبات میں آ کر سوچے سمجھے بغیر انتہائی اقدام اٹھا لیا اور تحقیق کیے بغیر پہلے میاں بیوی پر تشدد کیا اور بعد میں دہکتے ہوئے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا دیا۔

شہباز کا مزید کہنا تھا کہ مقتولین کے بچے سخت پریشان ہیں اور اپنے ماں باپ کو یاد کر کے زاروقطار رو رہے ہیں، انکی زندگی کو بھی خطرہ ہے ،وزیر اعلیٰ پنجاب کو انہیں خود مل کر انصاف کی تسلی دینی چاہیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ امر واضح ہے کہ اس حادثے میں بھٹہ کے مالک اور منشیوںکی مجرمانہ غفلت کے ساتھ ساتھ پولیس کی لاپرواہی بھی شامل تھی۔