سعودی شہزادوں میں جھگڑا ہو سکتا ہے

منگل 18 نومبر 2014 23:45

سعودی شہزادوں میں جھگڑا ہو سکتا ہے

جدہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18نومبر۔2014ء)مشرق وسطیٰ میں جاری غیر معمولی بے چینی کے تناظر میں یہ سوال مزید اہم ہوگیا کے خطے کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب میں موجودہ شاہ کے بعد بادشاہت کا تاج کس شہزادے کے سر پر سجے گا۔ بی بی سی کے مطابق یہ سوال اس سے پہلے شاید کبھی اتنی شد و مد سے نہیں اٹھا تھا جتنا 90 سالہ بیمار شاہ عبداللہ کی جانشینی کے حوالے سے اٹھایا جا رہا ہے۔

سعودی عرب نہ صرف ایک بڑا ملک ہے بلکہ مسلمانوں کے دو مقدس ترین مقامات کی نگہبانی کے حوالے سے یہ ملک خود کو دنیا بھر کے سنی مسلمانوں کا نمائندہ بھی سمجھتا ہے۔دنیا میں سے سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ایران کی جانب سے اپنا اثر و رسوخ بڑہانے کی کوششوں کے خلاف کھڑا ہونے والا سنی مسلمانوں کا سب سے مضبوط ملک سمجھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

بظاہر لگتا ہے کہ سعودی عرب میں بادشاہ کی موت کی صورت میں جانشینی کا مرحلہ آل سعود کے بڑے شہزادوں کے درمیان بغیر کسی جھگڑے کے طے پا جاتا ہے۔مثلاً ہر کوئی جانتا ہے کہ شاہ عبداللہ کی جگہ ولی عہد شہزادہ سلمان لیں گے اور شہزادہ سلمان کے شاہ بننے پر شہزادہ مقرن خود بخود نئے ولی عہد بن جائیں گے۔ یہ تینوں مرد سعودی عرب کے بانی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے بیٹے ہیں جو سنہ 1952 میں انتقال کر گئے تھے۔

ابن سعود کی وفات کے بعد بادشاہ بننے والے پانچوں افراد کا انتخاب ابن سعود کے درجنوں شہزادوں میں سے کیا گیا تھا۔ لیکن یہ سلسہ غیر معینہ مدت کے لے یوں ہی نہیں چل سکتا۔
آئندہ امتحان
شہزادہ مقرن ساٹھ کے پیٹے میں ہیں اور وہ ابن سعود کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ لیکن ان کے کچھ سوتیلے بھائی عمر میں ان سے بڑے ہیں، جن میں شہزادہ احمد بھی شامل ہیں جو ولی عہد شہزادہ سلمان کے سگے بھائی ہیں۔

شہزادہ احمد اور ولی عہد شہزادہ سلمان ان سات بیٹوں میں سے دو ہیں جنھیں ’سدیری سات‘ کہا جاتا تھا۔ انہیں یہ نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ سب کے سب ابن سعود کی سب سے زیادہ چہیتی اہلیہ حسہ السدیری کے بطن سے پیدا ہوئے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ابن سعود کی نرینہ اولادوں میں سے ’سدیری سات‘ کے درمیان زبردست ایکا پایا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں، تاہم آج کہا جا رہا ہے کہ شہزادہ مقرن کی ولی عہد کے عہدے پر ترقی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس شنشہاہت کے بانی کے آخرے صاحبزادے ہوں گے جو بادشاہ بنیں گے۔

لیکن ہو سکتا کہ ایسا نہ ہو اور شہزادہ احمد اس بات پر اصرار کریں کہ وہ عمر میں شہزادہ مقرن سے بڑے ہیں۔ شاید اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے شاہ عبداللہ نے روایت سے بالکل ہٹ کر سعودی عرب کی شاہی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی شہزادے کو ’نائب ولی عہد‘ بھی بنایا دیا تا کہ مستقبل قریب میں فوری طور پر کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو۔ گذشتہ برسوں میں شہزادہ سلطان اور شہزادہ نائف دو ایسے ولی عہد رہیں ہیں جو بادشاہ بننے سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے۔

شاہ عبداللہ بھی عمر رسیدہ اور کمزور ہیں، جبکہ ولی عہد شہزادہ سلمان بھی نہ صرف 78 برس کے ہو گئے ہیں بلکہ ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں۔جانشینی کے امور سے نمٹنے کے لیے قائم کی جانے والی کمیٹی ’وفاداری کونسل‘ کا اجلاس مارچ 2014 میں ہوا جس میں شاہ عبداللہ کے شہزادہ مقرن کو ولی عہد بنائے جانے کے فیصلے کی توسیع کی گئی اور اس میں یہ اتفاق بھی کیا گیا کہ شہزادہ مقرن کی تقرری کا فیصلہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

’وفاداری کونسل‘ ابن سعود کے بیٹوں اور پوتوں پر مشتمل ہے۔لیکن ’وفاداری کونسل‘ کے اجلاس میں موجود تمام شہزادوں نے شہزادہ مقرن کی ترقی کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا۔لگتا ہے کہ یہ اختلاف اس وقت ایک مرتبہ پھر زیادہ شدت کے ساتھ منظر عام پر آ سکتا ہے جب ابن سعود کا سب سے چھوٹا بیٹا ولی عہد سے اگلے مرحلے میں داخل ہو گا۔ عام لوگوں میں سعودی عرب کے مستقبل کے باشاہ کے حوالے سے پائی جانے والی افواہوں کا مرکزی نکتہ آج یہ ہے کہ ابن سعود کے پوتوں میں سے اولین ترجیح کسے دی جائے گی۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سعودی شاہی خاندان میں جانشینی کے حوالے سے بھی ہمیں اس مشہور مقولے کی افادیت معلوم ہوتی ہے کہ ’جو زیادہ بولتے ہیں وہ کچھ نہیں جانتے، اور جو بہت کچھ جانتے ہیں وہ کچھ نہیں بولتے۔‘اس مرحلے پر آپ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے ہیں کہ آئندہ باشاہت کے امیدواروں پر ایک نظر ڈالیں جن میں سے زیادہ تر پہلے ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

لیکن اس میں بھی ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ جو شہزادے پہلے ہی اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں ان میں ہر کوئی اپنے ہی بیٹوں کو آگے لائے گا تا کہ آگے چل کر اسی کا بیٹا ولی عہد و بادشاہ بنے۔ جب بادشاہ اور ولی عہد تبدیل ہوتے ہیں تو ان شہزادوں کے بیٹوں پر عنایت بھی ہو سکتی اور انہیں اقتدار سے مذید دور بھی کیا جا سکتا ہے۔ شاہ عدباللہ کے چار بیٹوں میں سے جو منظر عام پر ہیں، ان میں سے سب سے آگے شہزادہ مطائب ہیں جنھیں گذشتہ برس نہ صرف نیشنل گارڈ کے کمانڈر کے مضبوط عہدے پر تعینات کیا گیا بلکہ ان کے لیے کابینہ میں خصوصی طور پر ایک نیا عہدہ پیدا کیا گیا تھا۔

جس شہزادے کے ولی عہد بنائے جانے کے بارے میں سب سے زیادہ باتیں ہو رہی ہیں وہ شہزادہ محمد بن نائف ہیں جو آج کل وزیر داخلہ ہیں۔شہزادہ محمد نہ صرف سعودی حکومت کے ایک مضبوط وزیر مانے جاتے ہیں بلکہ انھوں نے امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی اپنے میزبانوں کو ہمیشہ متاثر کیا ہے۔آج سعودی عرب کو کئی اندرونی مسائل کا سامنا ہے جن میں نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بروزگاری، عراق اور شام سے جہادیوں کی وطن واپسی، معاشرتی رابطوں کی ویب سائیٹس پر ملک کے اندر آلِ سعود پر بڑھتی ہوئی تنقید سے لے کر شیعہ اکثریتی مشرقی صوبے میں شورش تک شامل ہے۔

سعودی عرب کے بڑے شہزادے ان مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے دشمنوں کو بالکل یہ اشارہ نہیں دینا چاہتے کہ ابن سعود کے شاہی خاندان کے اندر بھی کوئی توڑ پھوڑ ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں لگتا یہی کہ اس بات پر دھواں دھار بحثیں تو ضرور ہوں گی کہ ابن سعود کا کون سا پوتا بادشاہوں کی نئی قطار میں سب سے آگے ہوگا، لیکن جب فیصلے کا وقت آئے گا تو بات باہر نہیں ہوگی بلکہ شہزادے محل کے کسی گوشے میں بیٹھ کر یہ فیصلہ بھی کر دیں گے۔