ایوارڈ امن کے متلاشی بچوں کے نام، انعامی رقم سوات میں سکولوں کی تعمیر پر خرچ ہو گی: ملالہ یوسفزئی

بدھ 10 دسمبر 2014 19:03

ایوارڈ امن کے متلاشی بچوں کے نام، انعامی رقم سوات میں سکولوں کی تعمیر ..

اوسلو(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10دسمبر۔2014ء) عالمی نوبل انعام جیتنے والی ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ امن ایوارڈ وصول کرنے والی پہلی پاکستانی اور پشتون ہونے پر فخر ہے، میرا ایوارڈ ان بچوں کے نام ہے جو امن کے خواہش مند ہیں، جن کی زندگیاں سہمے ہوئے گزر جاتی ہیں اور ان حالات میں تبدیلی چاہتے ہیں ۔ ناروے میں امن انعام وصول کرنے کے بعد تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ آج بھی میرے آبائی علاقے میں لڑکیوں کیلئے ہائر سکینڈری نہیں ہے، ملالہ فنڈ کی سب سے زیادہ رقم اور نوبل انعام کی رقم سوات اور شانگلہ کے علاقوں کے سمیت پاکستان بھر میں سکولوں کی تعمیر پر خرچ کی جائے گی، اور ایک دن آئے گا جب ہر بچہ سکول جاتا ہو گا اور دنیا بدل چکی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ہر بچے تک تعلیم کی فراہمی شاید ایک مشکل کام ہے مگر ناممکن نہیں ہے، لوگوں میں بندوقوں کی ترسیل آسان ہے اور کتابیں دینا مشکل کام ہے ، دنیا میں ٹینکوں کی تعمیر تو آسان ہے مگر سکول کی تعمیر مشکل کر دی گئی، انسان چاند پر تو جا چکا ہے مگر زمین پر موجود بچوں کو تعلیم نہیں مل رہی۔

(جاری ہے)

ملالہ یوسفزئی نے فخریہ انداز میں کہا کہ دنیا میں تبدیلی لانے والے مارٹن لوتھر کنک، نیلسن منڈیلا اور یانگ سوچی بھی کچھ سال پہلے میری جگہ پر کھڑے تھے۔

انہوں نے واضح کیا کہ آج کا دن میرے لئے بہت خوشی کا دن ہے، میں حمایت کرنے پر دنیا کے ہر انسان کا شکریہ ادا کرتی ہوں، میں ہر اس انسان کی شکر گزار ہوں جو مجھ سے محبت کرتے ہیں، اپنے والد کی شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے پر نہیں کاٹے بلکہ مجھے پرواز کر نے میں مدد کی اور میری والدہ بھی جنہوں نے ہمیشہ مجھے سچ بولنے کا درس دیا میرے شکریہ کی حقدار ہیں۔

گل مکئی کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں نے مختلف طرح سے میری تعریف کی، کسی نے مجھے طالبان کے خلاف آواز اٹھانے پر پسند کیا تو کسی نے مجھے بچوں کی تعلیم کیلئے بات کرنے پر پسند کیا اور کسی نے آج مجھے امن کا نوبل انعام جیتنے پر مجھے پسند کیا۔ انہوں نے سوات میں اپنے اوپر ہونے والے حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب مجھ پر حملہ ہوا تو میرے پاس دو راستے تھے ، پہلا یہ کہ میں خاموش رہوں اور اپنے مارے جانے کا انتظار کروں اور دوسرا یہ کہ میں بول اٹھوں اور مر وں، میں نے بولنے کا فیصلہ کیا اور ان دہشت گردوں کو پیغام دیا کہ وہ اسلام کا نام استعمال کر کے لوگوں مزید نہیں مار سکتے، میری اور میری سہیلیوں کے قربانی سے ہماری آواز اونچی ہوتی رہی اور دنیا بھر کو معلوم ہو گیا کہ اسلام تو امن کا دین ہے۔

ملالہ نے کہا کہ آج دنیا کے مختلف ممالک کی لڑکیاں بھی میری جیسی کہانیاں رکھتی ہیں، ان کو ہماری طرح لڑنا ہو گااور اپنی تعلیم بھی جاری رکھنی ہو گی تا کہ اس دنیا میں امن کی امید باقی رہے۔ انہوں نے پر جوش انداز میں کہا کہ میری آواز سوات کی ملالہ کی آواز ہے، میری آواز شازیہ کی آواز ہے جسے سکول جاتے ہوئے گولیاں ماری گئیں، میں وہ لڑکی ہوں جس کی آواز بوکو حرام نے دبا دی اور میں وہ لڑکی ہوں جو افغانستان، غزہ، عراق، شام اور افریقہ کے امدادہ کیمپوں میں رہتی ہے۔

ملالہ یوسزئی نے شرکاءسے خطاب کے آغاز میں کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے کیلاش ستھیارتی کے ساتھ امن کا نوبل انعام شیئرکر رہی ہوں، بھارت اور پاکستان کو پیغام دیتی ہوں کہ ہم مل کر کام کر سکتے ہیں، آ ئیں مل کر کام کریں اور دنیا کو دکھائیں کہ ہم امن سے رہ سکتے ہیں اور اچھے دوست بن سکتے ہیں ۔ عالمی امن ایوارڈ دینے کی تقریب میں دنیا بھر سے اہم شخصیات سمیت ملالہ یوسفزئی کی سہیلیوں، نائجیریا ، شام اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں نے بھی شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :