داڑھی صاف کر کے عریاں حالت میں لایا جاتا ‘اہلکار چہرے اور کمرپر لاتوں کی بارش کر دیتے ‘ گوانتانا موبے کے قیدی کی داستان

جمعہ 12 دسمبر 2014 14:17

داڑھی صاف کر کے عریاں حالت میں لایا جاتا ‘اہلکار چہرے اور کمرپر لاتوں ..

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 12 دسمبر 2014ء) گوانتاناموبے میں قید سمیر ناجی نے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے سی آئی اے مظالم کی ہولناک داستان سناتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے 3 ماہ میں ہر روز 3 تفتیشی ٹیمیں میرے سیل میں داخل ہوتیں ‘ چہرے اور کمر لاتوں کی بارش کر دیتے ‘ بے ہوشی کے انجکشن بھی لگائے جاتے رہے ‘ 136 قیدی اب بھی گوانتاناموبے جیل میں ہولناک سزائیں بھگت رہے ہیں، ننگی عورتوں کی تصاویر دکھا کر میرے مذہب کا مذاق اڑایا جاتا ہے ‘امریکہ اپنے ماضی اور حال کو چھپا نہیں سکتا ہماری کہانیاں اور مسلسل قیدوبند کودنیا نظر انداز نہیں کر سکتی ۔

یمن سے تعلق رکھنے والے سمیر ناجی کو اسامہ بن لادن سے تعلق کے شبے میں گرفتار کرکے گوانتاناموبے میں لایا گیا جس نے اس بدنام زمانہ جیل میں 13 اذیت ناک سال گزارے اور پھر انہیں 2009 میں تمام الزامات سے بری کردیا گیا ‘ پھر بھی جیل میں ہی رکھاگیا، گزشتہ روزاس سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ریپرائیو کے وکلا نے ملاقات کی اوراس ملاقات میں سمیر نے سی آئی اے کی اذیت ناک سزاوٴں کے راز سے پردہ اٹھایا۔

(جاری ہے)

سمیر نے کہا کہ سنا ہے امریکی سینیٹ میں سی آئی اے کی ظالمانہ سزاوٴں پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی ہے تاہم میری کہانی امریکہ سے دور بہت دور گوانتاناموبے جیل سے تعلق رکھتی ہے، سی آئی اے کی کارکردگی پر سینیٹ کی رپورٹ اس ظلم کے رازوں سے پردہ اٹھنے کا آغاز ہے جو امریکی اپنے نام سے کرتے رہے ہیں ‘ یہ اس چھوٹی اور سرد جیل کی خاموشی کے خاتمے کا آغاز یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کو ہر لمحے یہ خوف رہتا ہے کہ اگلے لمحے آپ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، یہاں کوئی مددگار نہیں اور آپ کویہ بھی پتہ ہے کہ تمام دوست، خاندان اورزندگی آپ سے دور بہت دور ہے۔

یمن سے تعلق رکھنے والے سمیر ناجی کا کہنا تھا کہ پہلے 3 ماہ میں ہر روز 3 تفتیشی ٹیمیں میرے سیل میں داخل ہوتیں، ہر سیشن میں وہ آتے مجھ پر چیختے، میرے چہرے پراورکمر پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردیتے اور مکمل طور پر سونے سے محروم کردیا جاتا پھر ایک شخص میرے بازو میں انجکشن لگاتا پھر مجھے ہوش نہیں رہتا، پھر کچھ دیربعد سیل کا دروازہ کھلتا اور ایک گارڈ اندر داخل ہوتا اور مجھ پر جنگلی جانوروں جیسی آوازیں نکالتا اور چلا جاتااگر میں کھانے سے انکارکردیتا تو کھانا میرے سر پر ماردیا جاتا پھر ایک شخص کو حکم دیا جاتا کہ وہ میرے جسم میں کھانا داخل کرے، وہ شخص میرے بازو پر دو مختلف جگہوں سے دوٹیوب داخل کرتا جس کے بعد بازو سے خون بہنا شروع ہوجاتا۔

پھر دروازہ کھلتا اور ایک گارڈ اندر داخل ہوتا مجھے فرش پر دھکا دے کر کمر پر چڑھ کر کودنا شروع کردیتا۔سمیر نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پیشاب کیلئے واش روم جانے کی اجازت نہ تھی اورجب پیشاب کی شدت سے تکلیف بڑھ جاتی تو تفتیش کار قہقہے مار کر ہنستے اور ترجمان کے ذریعے کہتے کہ اسے بتادو اگر پینٹ میں پیشاب کیا تو اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔

پھر مجھے ایک سینما نما ہال میں لے جایا جاتا اور دوسروں قیدیوں پر تشدد کی ویڈیوز دکھائی جاتی اور کہا جاتا کہ ہمارے لیے رقص کرو پھر میری ہتھکڑیوں کو کھینچتے اور حکم دیتے کہ دائرے میں گھومو اور جب میں انکار کردیتا تو میرے جسم کے مخصوص اعضا کو چھیڑتے۔ انہوں نے کہاکہ بارش کے دوران سیل سے باہر لا کر کیچڑ میں چلنے پر مجبورکیا جاتا انکار کرنے پر زمین پر رگڑا جاتا، میری قید کے سب سے درد ناک لمحات فحاشی کا کمرہ تھا جہاں ہر طرف عریاں تصاویر لگائی گئی تھیں یہاں میری داڑھی صاف کر کے عریاں حالت میں لایا جاتا اور ننگی عورتوں کی تصاویر دکھا کر میرے مذہب کا مذاق اڑایا جاتا اور مجھے جانوروں کی آوازیں نکالنے پر مجبور کیا جاتا جبکہ انکار کرنے پرمارا جاتا اور آخر میں انتہائی ٹھنڈا پانی پورے جسم پر پھینک دیا جاتا۔

اس خوفناک تشدد کے بعد جب انہیں یقین ہوگیا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تو 6 ماہ قبل 4 امریکی سیکورٹی ایجنسیز نے میرے کیس کا ایک بارپھر جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مجھے رہا کردیا جائے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے بغیر کسی الزام کے براہ راست اس جیل میں لانا ظلم اور جیل ہر لہرانے والے امریکی پرچم کیلئے شرمناک بھی ہے۔سمیر ناجی نے آخر میں کہا کہ مجھ جیسے 136 قیدی اب بھی گوانتاناموبے جیل میں ہولناک سزائیں بھگت رہے ہیں، امریکہ اپنے ماضی اور حال کو چھپا نہیں سکتا ہماری کہانیاں اور مسلسل قیدوبند کودنیا نظر انداز نہیں کر سکتی۔

متعلقہ عنوان :