امریکہ ، وفاقی عدالت کا مقبول یو ٹیوب پر چلنے والی اینٹی مسلم ویڈیو کلپ کو ہٹائے جانے کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ۔۔

نائنتھ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیل کا ایک گیارہ رکنی پینل پاساڈینا میں یو ٹیوب کے مالک گوگل کے دلائل سنے گا۔۔۔ فلم کے کاپی رائٹس فلم میکر مارک بیسلے یوسف کے پاس ہیں ،گوگل کا موقف حکومتی سنسر شپ سامنے آنے کے ساتھ ساتھ آزادی اظہارِ رائے کی بھی خلاف ورزی ہوگی ،امریکی صدر

پیر 15 دسمبر 2014 16:55

امریکہ ، وفاقی عدالت کا مقبول یو ٹیوب پر چلنے والی اینٹی مسلم ویڈیو ..

لاس اینجلس(اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین ۔15دسمبر 2014ء) امریکا کی ایک وفاقی عدالت نے مقبول ویڈیو شیئرنگ سروس یو ٹیوب پر چلنے والی اینٹی مسلم ویڈیو کلپ کو ہٹائے جانے کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق انو سینس آف مسلمز (مسلمانوں کی معصومیت) نامی اس فلم نے مشرقی وسطیٰ میں اشتعال برپا کردیا تھا فلم کے اداکاروں کو قتل کی دھمکیاں دی جانے لگیں نائنتھ یو ایس سرکٹ کورٹ آف اپیل کا ایک گیارہ رکنی پینل پاساڈینا میں یو ٹیوب کے مالک گوگل کے دلائل سنے گا جس نے مذکورہ فلم کو یو ٹیوب سے ہٹانے جانے کے فیصلے پر اعتراض کر رکھا ہے۔

اس سے قبل فروری میں ایک تین رکنی پینل نے فیصلہ دیا تھا کہ خاتون اداکار سنڈی لی گارسیا 2012 کی اس ویڈیو فلم کے کاپی رائٹس رکھتی ہیں جن کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک بالکل مختلف فلم میں کام کیا تھا  جو ویڈیو فلم منظرعام پر آئی وہ بالکل مختلف تھی۔

(جاری ہے)

گارسیا کے مطابق انھیں فلم ڈیزرٹ واریئر کرنے کیلئے 500 ڈالر معاوضہ دیا گیا تھا جس میں مذہب کا موضوع شامل نہیں تھا تاہم جب یہ فلم منظرعام پر آئی تو اس میں ان کی آواز میں ڈب شدہ پانچ سیکنڈ کے سین میں انھیں ایک ایسا جملہ کہتے ہوئے دکھایا گیاجوسراسر توہین رسالت کے زمرے میں آتا ہے۔

اس حوالے سے عدالت کا کہنا تھا کہ یہ بلا شبہ مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہے اور مصری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے کے بعد پوری دنیا میں اس کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔گوگل کا کہنا ہے کہ اس فلم کے کاپی رائٹس فلم میکر مارک بیسلے یوسف کے پاس ہیں جنھوں نے یہ اسکرپٹ لکھا، اسے پروڈیوس کیا اور اس پر گارسیا کے ڈائیلاگز ڈب کیے۔

دوسری جانب ایک جج کا کہنا ہے کہ چونکہ گارسیا نے اس فلم میں کوئی تخلیقی کردار ادا نہیں کیا، لہذا انھیں اس کے مالکانہ حقوق نہیں دیئے جا سکتے۔

یو ٹیوب نے صدر باراک اوباما اور دیگر رہنماوٴں کی جانب سے اس ویڈیو کو ہٹانے جانے کی کال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے حکومتی سنسر شپ سامنے آنے کے ساتھ ساتھ آزادی اظہارِ رائے کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔گوگل کو اپنی اپیل کے سلسلے میں فلم میکرز کے ساتھ ساتھ حریف یاہو اور مشہور میڈیا کمپنیز جیسے دی نیو یارک ٹائمز کی بھی حمایت حاصل ہے، جو نہیں چاہتے کہ پہلی ترمیم کے قوانین میں کوئی بھی تبدیلی ہو۔

گارسیا کو دیگر اداکاروں اور امریکن فیڈریشن آف میوزیشنز کی حمایت حاصل ہے۔اگر عدالت کے گیارہ رکنی پینل نے مختصر پینل کے فیصلے کو برقرار رکھا تو یو ٹیوب اوردیگر انٹرنیٹ کمپنیز کو نوٹسز دیئے جائیں گے۔نیویارک میں کاپی رائٹ اینڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی کے ایک وکیل ایلکس لارنس کے مطابق ان کا کہنا کہ عدالت گارسیا کو کچھ سہولت دیگی جن کو 500 ڈالر دیا گیا اور اب انھیں قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔دوسری جانب وفاقی پروسیکیوٹرزکو تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ فلم میکر یوسف نے 2012 میں چیک فراڈ کیس میں ضمانت کے دوران کئی جعلی نام استعمال کیے ان کو 2012 میں جیل بھیجا گیا جہاں سے وہ ستمبر 2013 میں ضمانت پر رہا ہوئے۔

متعلقہ عنوان :