سانحہ پشاور پردکھی اور غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں ،مذمت کا لفظ انصاف نہیں کرتا، مولانا عبدالعزیز

جمعرات 18 دسمبر 2014 11:59

سانحہ پشاور پردکھی اور غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں ،مذمت کا لفظ انصاف ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 دسمبر 2014ء) سابق خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز نے کہاہے کہ سانحہ پشاور پردکھی اور غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں مگرمذمت کا لفظ انصاف نہیں کرتا، ہمیں دہرامعیار ترک کرنا ہوگا، سب کیا دھرا ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے سانحہ پشاور ردعمل کا اظہار ہے، ملک میں شریعت کا نفاذ ناممکن بنایا جارہاہے، 55 سال تک پرامن طریقے سے نفاذ شریعت کی کوشش کی مگر تمام راستے بند کردیئے گئے، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شرعاً جائز ہے یا اتحادی بننا جائز تھا ،مولاناعبدالعزیز کے 4سوال ۔

بدھ کے روز جامعہ جفصہ اسلام آباد میں ”آن لائن “ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے مولانا عبدالعزیز نے کہاکہ پشاور سانحہ کے غمزدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں دکھی ہیں، رنج و الم میں مبتلا ہیں تمام خاندانوں کیساتھ نہ صرف تعزیت کرتے ہیں بلکہ اس حادثے کا شکار ہونیوالے جاں بحق افراد کیلئے دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایک سوال پر مولانا عبدالعزیز نے کہاکہ یہ سب کچھ کیا دھراہمارے عاقبت نااندیش حکمرانوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو ایک طرف رکھ کر اپنے مفادات کی خاطر غیروں کے ساتھ دوستیاں بڑھائیں اور جونوجوان کل کشمیر جہاد میں برسر پیکار تھے آج ان کو اپنے سامنے لاکھڑا کیاہے ۔

اس سوال پر کہ کیا معصوم بچوں کو شہید کرنا یا خاتون کو زندہ جلانا جائز یا جہا د ہے تو سابق خطیب لال مسجد نے کہاکہ یہ رد عمل ہے ہمیں اس بارے بھی غور کرنا ہوگا کہ ہم جس طرح امریکہ و دیگر غیروں کے اتحادی بن رہے ہیں کیا وہ شرعی لحاظ سے جائز بھی ہے ؟ کیا واقعی مجاہدین دہشت گردبن چکے ہیں ؟کیا پاک فوج کا دہشت گردی کیخلاف اس جنگ میں حصہ لینا شرعاً جائز ہے ؟جیٹ طیارے جو بمباری کررہے ہیں کیا وہ شرعی طور پر جائز ہے ؟۔

ایک اور سوال پر مولانا عبدالعزیز نے کہاکہ ہمیں تمام مسائل شریعت کی رو سے دیکھنا ہونگے جس کو چاہا دہشت گردی کا لیبل لگا کر اس کی جان لے لی، جیٹ طیاروں اور بمباری و فائرنگ سے اگر ہلاکتیں کی جائیں گی تو اس کا رد عمل بھی آئیگا۔ ایک اور سوال پرمولانا عبدالعزیز نے کہاکہ جب حکومت طالبان کے مذاکرات شروع ہوئے تو اس وقت بھی میں نے موقف اختیار کیا تھا کہ اگر طالبان ملک میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں تو اسے نافذ کردیا جائے اس کو ماننے میں حرج نہیں ہے ۔

انہوں نے ایک اور سوال پر کہاکہ کہا جاتا ہے کہ بندوق کی نوک پر شریعت نافذ نہیں ہوسکتی تو 55سال سے زائد وقت گزر گیا لیکن شریعت نافذ کی نہیں کی گئی بلکہ نفاذ شریعت کے تمام دروازے بند کردیئے گئے ۔ واقعہ کی مذمت بارے سوال کے جواب میں مولانا عبدالعزیز نے کہاکہ مذمت کا لفظ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا کیونکہ اگر جیٹ طیاروں کی بمباری سے ہلاکتوں پر ہم ساقط رہتے ہیں تو پھر ہم اس معاملے پر بھی خاموشی کوہی بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ اگر دو بھائیوں میں طاقت ور بھائی کے کاموں پر ہم تنقید نہیں کرسکتے تو پھر ہم کمزور بھائی کی کارروائیوں پر کیوں چیخ اٹھتے ہیں اگر مذمت کرنا ہے تو پھر دہرا معیار ترک کرنا ہوگا اور تمام واقعات کی مذمت کرنا ہوگی۔

متعلقہ عنوان :