دہشتگردی کے مقدمات کی سماعت کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں سزائے موت کے سلسلے میں کوئی امتیاز نہیں برتا جائیگا ،وزیر دفاع ،

آرمی چیف کے دورہ افغانستان کے نتائج جلد آنا شروع ہو جائینگے، لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز سمیت طالبان کے حامیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائیگی ،2013 میں طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں فوجی آپریشن کرنا چاہیے تھا ، وزیر دفاع خواجہ محمدآصف کا انٹرویو

جمعہ 19 دسمبر 2014 21:17

دہشتگردی کے مقدمات کی سماعت کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں سزائے ..

اسلام آباد/لندن(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 19 دسمبر 2014ء) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے مقدمات کی سماعت کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں دہشت گردوں کی سزائے موت کے سلسلے میں کوئی امتیاز نہیں برتا جائیگا آرمی چیف کے دورہ افغانستان کے نتائج جلد آنا شروع ہو جائینگے  لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز سمیت طالبان کے حامیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائیگی نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کاکہ دہشت گردوں کی سزائے موت پر جلد عمدرآمد شروع ہو جائے گا۔

وزیر دفاع نے بتایا کہ مشتبہ دہشت گردوں سے تفتیش کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کاعمل پہلے سے ہی جاری تھا دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کیلئے تمام وسائل مہیا کریں گے اور جو کوئی بھی دہشت گردی کی حمایت کرے گا اس کے خلاف قانون حرکت میں آئیگا۔

(جاری ہے)

خواجہ آصف نے کہا کہ دہشت گردوں کی سزائے موت کے سلسلے میں کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے دورہ کابل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ آرمی چیف کے اس دورے کے نتائج جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے خواجہ آصف نے کہاکہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز سمیت طالبان کے حامیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی وفاقی وزیر دفاع نے کہا کہ ایسے عناصر ہمارے بچوں کے قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں وہ پاکستانی نہیں ہو سکتے انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان لوگوں کے مددگار ہیں، چاہے یہ زبان سے چاہے اپنے ایکشن سے یا کسی بھی طریقے سے ان کی مدد کر رہے ہیں تو وہ دہشت گردوں کے ساتھی ہیں ہمارے ساتھی نہیں ہیں۔

بعد ازاں بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیر دفاع نے کہاکہ 2013 میں جب چار ماہ تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے تھے اس وقت فوجی آپریشن کرنا چاہیے تھا۔انھوں نے کہا کہ ہم پر سیاسی دباوٴ بہت تھا اور ہم نے مذاکرات کا راستہ اختیار کیااور ہم کو معلوم تھا کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے تاہم پھر بھی ہم نے حجت تمام کی۔وزیر دفاع نے بتایا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کے بعد جون میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے تجربے سے سیکھا ہے کہ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے اس کا صرف فوجی حل ہی ہو سکتا ہے، ہمیں پہلے ان کا خاتمہ کرنا ہو گا پاکستان کی عوام ان لوگوں کا مکمل صفایا چاہتی ہے اور یہی کرنا چاہیے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پہلی بار تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی پیج پر ہیں اور یہ بہت ہی نایاب سیاسی اتفاق ہے۔وزیر دفاع نے کہاکہ طالبان کیخلاف کارروائی میں پاکستان کو افغان حکومت کی حمایت ہونی ضروری ہے۔