سینٹ میں سانحہ پشاور پر بحث جاری،ایکشن پلان پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے‘ پارلیمنٹ کی کمیٹی تشکیل دی جائے جو ایکشن پلان کی مانیٹرنگ کرے، سینیٹرز کا مطا لبہ

جمعہ 26 دسمبر 2014 15:48

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 26 دسمبر 2014ء) سینٹ میں جمعہ کے روز سانحہ پشاور پر بحث جاری رہی اور بیشتر سینیٹرز نے مطالبہ کیا کہ ایکشن پلان پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔ پارلیمنٹ کی کمیٹی تشکیل دی جائے جو ایکشن پلان کی مانیٹرنگ کرے۔ سینیٹر زاہد خان نے سانحہ پشاور پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام کے نام پر بچوں کو شہید کیا گیا ہے۔

کالعدم تنظیموں کو کام کرنے سے تو روکا گیا ہے لیکن ان کا نام نہیں لیا گیا۔ جیش محمد‘ لشکر طیبہ اور دفاع پاکستان میں شامل جماعتوں کا نام نہیں لیا گیا۔ البدر‘ حزب المجاہدین اور حرکت الانصار جیسی تنظیموں پر کہاں پابندی عائد کی گئی ہے۔ پنجاب میں پختونوں کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ پھانسی پر چڑھنے والوں میں ایک بھی پختون نہیں تھا۔

(جاری ہے)

افغانستان کو تباہ کرنے میں پاکستان کا بھی کردار ہے اب افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ جامعہ حفصہ کی طالبات کھلے عام داعش سے اپنی وابستگی کا اعلان کررہی ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں مرنے والوں کا کون ذمہ دار ہے۔ ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سچ سے پردہ اٹھانا ہوگا‘ مصلحت سے کام نہیں لینا چاہئے۔ دھاندلی کے نام پر سیاسی جماعت کا اپنا نقطہ نظر ہے۔

عمران خان نے کے پی کے میں اے این پی کا مینڈیٹ چرایا ہے۔ ہم نے بھی دھاندلی کے بارے میں الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے لیکن جواب ابھی تک نہیں ملا۔ سیاسی جرگہ پر پی پی پی اپنا نقطہ نظر واضح کرے۔ جو کچھ باہر ہورہا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں جب پارلیمنٹ میں مسئلہ آئے گا تو دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق و صوبائی حکومتیں اور پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں جو فیصلہ ہوا ہے اسے پارلیمنٹ میں لایا اور اس پر بحث کرائی جائے۔

اگر پارلیمنٹ کو بائی پاس کیا گیا تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ جیش محمد اور لشکر جھنگوی کے دہشت گرد ملک بھر میں پھر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے ہمارے ساتھ جو رویہ اختیار کیا ہے اس کی ذمہ دار وہ خود ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت پختونوں کیساتھ نارواء سلوک بند کرے۔ حکومت واضح کرے کہ کالعدم تنظیموں سے نمٹنے کیلئے کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔

دفاع پاکستان میں شامل جماعتوں کیخلاف اگر کوئی ایکشن پلان بنایا گیا ہے تو بتایا جائے۔ سینیٹر رؤف لالہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے پختونوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کررکھا ہے حکومت اس سلسلے کو فوری طور پر بند کرے۔ پیپلزپارٹی کے راہنماء اور سینیٹر بیرسٹر عثمان سیف اللہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سانحہ پشاور عام دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہے اس واقعہ کے بعد یہ شکوک و شبہات ختم ہوگئے ہیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔

یہ پاکستان کی بقاء اور نظریاتی جنگ ہے اگر یہ جنگ ہم نہ لڑے تو پاکستان باقی نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے بارے میں قوم کو اپنے دشمن کی نشاندہی کرنا ہوگی اور اس بارے میں اپنے خیالات اور تصورات واضح کرنا ہوں گے۔ جو قوت ہماری ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھائے گی وہ ہماری دشمن ہے اس جنگ کو جیتنے کیلئے متحد ہونا چاہئے۔ حکومت فوج کو اعلی قیادت فراہم کرے یہ قوم کی بقاء کیلئے اہم وقت ہے۔

نواز شریف کی زندگی کا بھی یہ اہم وقت ہے امید ہے کہ وہ قوم کو اعلی قیادت فراہم کریں گے۔ عثمان سیف اللہ نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کی حفاظت کرے۔ بچوں کے والدین کو میڈیکل کونسلنگ دی جائے۔ (ن) لیگ کے سینیٹر امیر حمزہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بچوں کا بہیمانہ قتل انتہائی افسوسناک اور پاکستان کے تشخص پر سوالیہ نشان ہے۔

جب تک طالبان کیخلاف ایکشن نہیں لیاجاتا اور انہیں ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک پاکستان آزاد ملک قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ بچوں کا قتل پاکستان کے مستقبل پر حملہ ہے۔ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ نیکٹا کو ایک سال سے فعال نہیں بنایا گیا۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کیخلاف سٹریٹجی نہیں بنائی جاسکی۔

متفقہ طور پر پوری سیاسی قیادت نے حکومت کا ساتھ دیا اور جو ایکشن پلان بنایا گیا ہے اس پر عمل کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی ایکشن پلان کی مانیٹرنگ کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں اے این پی نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ان کا نمو جائز ہے۔ افغانستان کی مثبت سوچ سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سرزمین استعمال نہیں کی گئی ہے۔ کور کمانڈر پشاور‘ کوئٹہ اور جلال آباد گئے ہیں جوکہ خوش آئند بات ہے۔

اس جنگ میں Pick and Choose نہیں ہونا چاہئے۔ پنجاب میں انتہاء پسندی کو بھی کمیٹی میں تسلیم کیا گیا ہے۔ سیاسی قیادت اور اپوزیشن نے اپنے اختلافات ختم کرکے قومی اتحاد کا ثبوت دیا ہے۔ 2015ء کا سال دہشت گردی اور انتہاء پسندی کو ختم کرنے کے عزم کے طور پر منایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایکشن پلان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی۔

ملک کی تمام سیاسی قوتیں‘ فوج اور میڈیا حقیقت میں ایک صفحے پر ہیں اب حکومت آگے بڑھے۔ حکومت بھی ایکشن پلان پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے۔ سینیٹر سعید اقبال نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بچوں کا قتل پاکستان کی ماؤں کی ممتا پر حملہ ہے ان ماؤں کو سول ایوارڈز دئیے جائیں۔ پیپلزپارٹی پاکستان کا ساتھ دے رہی ہے کسی پارٹی کا ساتھ نہیں دے رہی۔ پاکستان کے بچوں کیساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک اسحق کو کیوں رہا کیا گیا ہے وضاحت کی جائے۔؟

متعلقہ عنوان :