اپوزیشن کے ایک رکن نے 312 نشستیں رکھنے والی حکومت کیلئے کارروائی چلانا محال کر دیا ، کورم کی نشاندہی کے بعد کوششوں کے باوجود تعداد پوری نہ ہوسکی

جمعہ 2 جنوری 2015 15:39

اپوزیشن کے ایک رکن نے 312 نشستیں رکھنے والی حکومت کیلئے کارروائی چلانا ..

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین ۔ 2جنوری2015ء) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں موجود اپوزیشن کے صرف ایک رکن نے 312نشستیں رکھنے والی حکومت کیلئے کارروائی چلانا محال کر دیا ، کورم کی نشاندہی کے بعد حکومتی کوششوں کے باوجود تعداد پوری نہ ہوسکی جس پر اسپیکر نے اجلاس پیر کی سہ پہر تک ملتوی کردیا ،گنے کے کاشتکاروں کے مسائل پر جاری عام بحث بھی مکمل نہ ہو سکی ،حکومتی رکن چوہدری فقیر حسین ڈوگر نے کہا کہ محکموں کی طرف سے سوالات کے درست جواب نہ آنے پر اراکین اسمبلی ایوان کی کارروائی میں دلچسپی نہیں لیتے ۔

وقفہ سوالات کے دوران ایوان کو بتایا گیا ہے کہ بینک آف پنجاب کے صدر کی تبدیلی کا فیصلہ ہو چکا ہے اور اسکے لئے کمیٹی مختلف ناموں پر غور کر رہی ہے ،حکومتی بھی چاہتی ہے کہ ڈرامہ ایکٹ میں تبدیلی لائی جائے تاکہ فیملی ممبرز ایک ساتھ بیٹھ کر اسٹیج ڈرامہ دیکھ سکیں ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی اپنے مقررہ وقت نو بجے کی بجائے 45منٹ کی تاخیر سے اسپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔

حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی طرف سے اجلاس کی کارروائی میں دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ حکومتی بنچوں پر اراکین کی تعداد بمشکل 35سے 40جبکہ اپوزیشن بنچوں پر اجلاس کے خاتمے سے کچھ دیر قبل پیپلز پارٹی کے سردار شہاب الدین اور آزاد رکن احسن ریاض فتیانہ ایوان میں آئے ۔ پارلیمانی سیکرٹری رانابابر حسین نے خزانہ جبکہ رانا محمدارشد نے اطلاعات و ثقافت سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے جبکہ صوبائی وزیر ذکیہ شاہنواز کی آمد سے معذرت کے بعد محکمہ بہبود آباد سے متعلق سوالات موخر کر دئیے گئے ۔

پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد نے بتایا کہ اسکرپٹ اسکروٹنی کمیٹیاں تمام اسٹیج ڈرامہ ہالوں میں پیش کئے جانے والے اسکرپٹس کا پیشگی جائزہ لیتی ہے اور اس میں قابل اعتراض جملے ختم کر دئیے جاتے ہیں جبکہ اسٹیج ڈرامہ پیش کئے جانے کے دوران بھی چیکنگ کیلئے کمیٹیاں قائم ہیں جو فحش ڈانس یا حرکات پر کارروائی کرتی ہیں ۔ اس سلسلہ میں نہ صرف فنکاروں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات مقدمات بھی درج کرائے گئے ہیں۔

حکومتی رکن مولانا غیاث الدین نے سوال اٹھایا کہ پاکستان اسلامی ملک کیا اس میں کسی عورت کا مردوں کے سامنے ڈانس کرنا شرعاً جائز ہے جس پر اسپیکر نے کہا کہ اس پر تو آپ ہی فتویٰ دے سکتے ہیں ۔پارلیمانی سیکرٹری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ رکن اسمبلی کے تحفظات جائز ہیں ۔ ایکٹ کے تحت جو پیرا میٹرز ہیں اس کے مطابق ڈرامہ پیش کیا جاتا ہے ۔ حکومت بھی چاہتی ہے کہ ایکٹ میں تبدیلی لائی جائے اور فیملی ممبرز ایک ساتھ بیٹھ کر اسٹیج ڈرامہ دیکھ سکیں ۔

حکومتی رکن چوہدری فقیر حسین ڈوگر نے کہا کہ ایوان میں صرف بنا بنایا کھیل پیش کیا جاتا ہے ۔ سرکاری ادارے جواب دیتے وقت دیکھ لیا کریں کہ وہ جو اعدادوشمار پیش کر رہے ہیں وہی ٹھیک کر لیں ۔ ایوان میں سوالات کے صحیح جوابات نہیں ملتے اور یہی وجہ ہے کہ اراکین اسمبلی کے ایوان میں آنے میں دلچسپی انتہائی کم ہے جس پر اسپیکر نے کہا کہ ایسا نہیں جو بھی غلط جواب دے گا اس کے خلاف سخت کارروائی ہو گی ۔

پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد نے کہا کہ فنکار ہمارا اثاثہ ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت نے 2010ء میں فنکاروں کے لئے دو کروڑ روپے کی گرانٹ مختص کی جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے مزید پچاس لاکھ کا اضافہ کر دیا ہے ۔ پہلے 117فنکاروں کو ماہانہ سکالر شپ ملتی تھی لیکن رقم میں اضافے کے بعد 143فنکاروں کو ماہانہ سکالر شپ دی جارہی ہے ۔ نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے حکومتی رکن ڈاکٹر فرزانہ نذیر نے کہا کہ پوری دنیا میں بھارتی فلم انڈسٹری چھائی ہوئی ہے جبکہ ہماری انڈسٹری زمین بوس ہو گئی ہے ۔

ہمارے سینما مارکیٹوں میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔ حکومت اکیڈمی بنائے تاکہ نئے فنکار یہاں سے سیکھ سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ فنکار پوری دنیا میں اپنی قوم کے سفیر ہوتے ہیں ۔ فلم انڈسٹری کی معاونت کی جائے اس سے ہمیں زر مبادلہ بھی ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی بیرون ملک میں جائیں تو وہاں پاکستان کی بجائے بھارتی فلم دیکھ کردل روتا ہے اس پر حکومت ضرور توجہ دے ۔

حکومتی رکن شیخ علاؤ الدین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ رکن اسمبلی کا دل کس وجہ سے روتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ اسمبلی ہے جہاں پاکستان کی قرارداد پاس ہوئی کیا قرارداد میں یہ تھا ۔آج ان لوگوں کی روحیں بھی تڑپ رہی ہوں گی ۔ بھارت ہمارے جوانوں کو شہید کر رہا ہے اور ہم انکی فلمیں دیکھتے ہیں ۔ اپنی ایکسپورٹ آئٹمز دیکھ کر دل کیوں نہیں روتا ۔

پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت فلم انڈسٹری کو پرموٹ کر رہی ہے ۔ پنجاب حکومت نے اس سلسلہ میں سینماؤں پر عائد ٹیکس ختم کر دیا ہے ۔ اپنے سینماؤں میں بھارتی یا انگریزی فلمیں دیکھ کر خوشی نہیں ہوتی بلکہ حکومت انکی حوصلہ شکنی کرتی ہے ۔ پاکستان میں یہ ٹیلنٹ موجود ہے کہ ہم بھارت کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ اسپیکر کی طرف سے گنے کے کاشتکاروں کے مسائل پر عام بحث کا اعلان کیا گیا تو حکومتی رکن شیخ علاؤ الدین نے کہا کہ ایوان میں 38یا 39قائمہ کمیٹیاں ہیں جبکہ اتنے ہی پارلیمانی سیکرٹریز ہیں ۔

وزیروں کو چھوڑیں وہ تو مصروف ہیں ۔ اگر خواتین اراکین نہ ہوں تو یہ ایوان دس منٹ بھی نہیں چل سکتا ۔ بتائیں خواتین کسانوں کے مسائل پر کیا بات کریں گی ۔ اسپیکر کی ہدایت پر وزیر خوراک بلال یاسین نے ایوان میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے ایوان سے آنے والے احکامات پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری نوٹس لیتے ہوئے اقدام اٹھایا اور گنے کی قیمت 180روپے فی من مقرر کی گئی ۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت 44میں سے 42شوگر ملوں نے کرشنگ سیزن کا آغاز کر دیا ہے جبکہ دو نے تاحال اس کا آغاز نہیں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں بحث کے دوران جو بھی مثبت تجاویز آئیں گی حکومت ان پر عملدرآمد کرے گی ۔ حکومتی رکن محمد آصف باجوہ نے کہا کہ کاشتکاروں کو 180روپے فی من کی بجائے 150کے حساب سے ادائیگیاں کی گئی ہیں ،حکومت کاشتکاروں کا نقصان پورا کرے۔

پنجاب کے کسان کو بچانے کے لئے کھاد‘ زرعی ادویات کی قیمتیں مقرر کی جائیں ۔ حکومتی رکن طارق محمود باجوہ نے کہا کہ آج پنجاب کا کسان بے آسرا ‘ بے سہارا اور مفلو ج ہے ۔ دھان کے کاشتکار کو 30ہزار فی ایکڑ کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ مڈل مین کی وجہ سے کسان گندم کی بوائی وقت پر نہیں کرسکا ۔ انہوں نے کہا کہ کسان گنے کی فصل کی تیاری پر سب سے زیادہ محنت اور وقت لگاتا ہے لیکن شوگر مافیا اتنا طاقتور ہے کہ کسان کو اس کا صحیح معاوضہ نہیں ملتا ۔

کانٹے پر کٹوتی کر کے 100من کو 80من ظاہر کیا جاتا ہے ۔ شوگر مافیا نے آگے کمیشن مافیا رکھا ہوا ہے جو سی پی آر کے بدلے ایک لاکھ پر دس ہزار لے کر نوے ہزار دے دیتا ہے ۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ گنے کاشتکاروں کو سی پی آر کی بجائے چیک دیا جائے ۔ 1950کے ایکٹ میں ترامیم کی جائیں ، سی پی آر کو چیک کا درجہ دیا جائے ، شوگر ملوں کے مرکزی دروازوں پر کمپیوٹر ائزڈ کانٹے لگائے جائیں ۔

کین کمشنر اور ڈی سی اوز کو اس طرح کے اختیارات دئیے جائیں کہ وہ شوگر مافیا پر ہاتھ بھی ڈال سکیں ۔ شوگر ملوں کو 15کا حساب دینے کا پابند بنایا جائے ۔ ادائیگیاں نہ کرنے والی شوگر ملوں سے کسانوں کو کل رقم پر 11فیصد انٹرسٹ بھی لے کر دیا جائے ۔ حکومتی رکن امجد علی جاوید نے کہا کہ کاشتکار اپنی ہی پیداوار کی قیمت کا تعین کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔

جب فصل کسان کے پاس ہوتی ہے تو اسکی کوئی قیمت نہیں ہوتی لیکن جب ذخیرہ اندوزوں کے پاس چلی جاتی ہے تو اسکی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ شوگر مافیا نے نئی روش قائم کر لی ہے کہ کسانوں کا پیسہ روک کر اس پر منافع کماتے ہیں جبکہ اپنی مصنوعات کی پیشگی قیمت وصول کر لیتے ہیں ۔ اپنی مصنوعات کی ایک ایک سال کی پیشگی قیمت وصول ہوتی ہے جبکہ کسانوں کو کئی کئی سال تک ادائیگیاں نہیں کی جاتی ۔

شوگر مافیا نے اپنے ایجنٹ رکھے ہوئے ہیں جو کسانوں سے سی پی آر 15سے 20فیصد سے کم پر خریدتے ہیں۔ انہیں زرعی لوازمات مہنگے داموں دی جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی طرح یہاں بھی قانون سازی کی جائے جس میں یہاں بھی کسان اپنی انجمنیں بنائیں اور اپنی فصل کو روک سکیں اور اسے ذخیرہ کر سکیں ۔ سی پی آر دس روز میں کسی بھی بینک سے کیش ہو سکے ۔ اس موقع پر شیخ علاؤ الدین جیسے ہی اپنی گفتگو کا آغاز کرنے لگے تو پیپلزپارٹی کے سردار شہاب الدین نے کہا کہ اتنی اہم بحث ہو رہی ہے لیکن اراکین ہی موجود ہی نہیں میں کورم کی نشاندہی کرتا ہوں جس پر اسپیکر نے افسوس کا اظہار کرتے کہا کہ بحث میں کسانوں کے مسائل پر بات ہو رہی تھی ۔

اسپیکر نے پانچ منٹ کے لئے گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی اور تعداد پوری نہ ہونے پر 15منٹ کا وقفہ کیا گیا اور جب دوبارہ گھنٹیاں بجائی گئیں تو بھی تعداد پوری نہ ہونے پر اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا ۔

متعلقہ عنوان :