کرزئی حکومت کی اچھے طالبان کی مدد غلط حکمت عملی تھی ، رحمن ملک،

پاکستان پر حملوں کے ذمہ دار طالبان کے دو سرکردہ ’ دہشت گرد‘ آج بھی افغانستان کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں،تما م ’طالبان برے ہیں اگر آپ ایک کا ساتھ دیں گے تو ان کا کوئی نیا گروہ بن جائے گا،پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف قوانین میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے،بی بی سی سے گفتگو

جمعہ 2 جنوری 2015 22:28

کرزئی حکومت کی اچھے طالبان کی مدد غلط حکمت عملی تھی ، رحمن ملک،

اسلا م آ با د(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔2 جنوری۔2015ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح سابق افغان صدر حامد کرزئی کی ایجاد ہے اور کرزئی حکومت ایک عرصے تک اچھے طالبان کی حامی اور مددگار رہی جو کہ ایک غلط حکمت عملی تھی۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رحمان ملک کا کہنا تھا کہ افغانستان کی اسی غلط حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان پر حملوں کے ذمہ دار طالبان کے دو سرکردہ ’چیف دہشتگرد‘ آج بھی افغانستان کو محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

ان کے بقول اس کا حالیہ ثبوت یہ ہے کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے بچوں کو ہلاک کرنے والے دہشتگرد مسلسل افغانستان میں بیٹھے ہوئے اپنے رہنماوٴں کے ساتھ رابطے میں تھے۔

(جاری ہے)

’ اگر کوئی دہشگرد کسی مغربی ملک میں اس قسم کا حملہ کر کے پاکستان میں آ کر پناہ لے لیتا تو میڈیا سمیت ہر کوئی پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا۔ لیکن چونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اس لیے مغربی ممالک کے لیے پاکستان پر تنقید کرنا آسان ہے۔

‘پشاور میں سکول کے بچوں کے قتل عام کے جواب میں ردعمل کے بارے میں رحمان ملک کا کہنا تھا کہ پوری قوم اس سلسلے میں فوری اقدامات کی متقاضی ہے۔ ’جائیں اس ماں سے پوچھیں جس کا بچے اس حملے میں مارا گیا۔وہ اپنے بچے کے قاتلوں کے خلاف کارروائی دیکھنا چاہتی ہے۔‘اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح کے بارے میں اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے رحمان ملک کا مزید کہنا تھا کہ سابق افغان صدر نے خود ان سے ملاقات میں یہ اصطلاح استعمال کی تھی جس کے جواب میں رحمان ملک کے بقول انھوں نے افغان صدر کو کہا تھا کہ ہمیں اس قسم کی تخصیص سے پرہیز کرنا چاہیے اور تمام ’طالبان برے ہیں اور اگر آپ ایک کا ساتھ دیں گے تو ان کا کوئی نیا گروہ بن جائے گا۔

‘رحمان ملک کا کہنا تھا کہ صدر کرزئی کی حکومت نے ان سے اتفاق نہیں کیا بلکہ کرزئی حکومت اپنی دانست میں ’اچھے‘ طالبان کی حمایت کی حکمت عملی پر عمل بھی کرتی رہی۔سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’قوانین ارکانِ پارلیمنٹ نے بنائے تھے، اس لیے ان میں تبدیلی کرنا بھی پارلیمنٹ کا ہی کام ہے۔

’ہمارے سابق چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ آئین میں تبدیلی نہیں آ سکتی، لیکن جب چیف جسٹس افخار محمد چوہدری نے جنرل مشرف کو فوجی وردی میں توسیع دی تھی تو وہ بھی غیر آئینی، غیر قانونی تھا۔ ہمارے دْہرے معیار نہیں ہونے چاہییں بلکہ ہمیں جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست بات کو دروست اور غلط کو غلط کہنا چاہیے۔‘پاکستان میں دولتِ اسلامیہ یا داعش کی موجودگی کے حوالے سے ایک سوال پر پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ یہ اب کوئی راز کی بات نہیں ہے کیونکہ داعش کی پاکستان میں موجودگی کے کئی ثبوت سامنے آ چکے ہیں جن میں اردود زبان میں اس گروہ کے لٹریچر کی دستیابی بھی شامل ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا وہ دہشتگردی کے خلاف لائحہ عمل ترتیب دینے کی ذمہ دار پارلیمانی کمیٹی کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، رحمان مللک نے کہا کہ اس کمیٹی کے اعلان پر تمام سیاسی جماعتیں متفق تھیں۔’ابھی تک اس کمیٹی کی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا ہے لیکن جب اجلاس ہو گا تو ہم تمام چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی بتا سکیں گے کہ یہ کمیٹی اپنے مقاصد میں کس قدر کامیاب ہوئی ہے۔

‘ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان دہشتگردی کے حوالے سے بیس نکات پر اتفاق رائے سے متعلق ایک سوال پر رحمان ملک کا کہنا تھا کہ ’تمام چیزوں کو پارلیمنٹ میں آنا ہے۔ ابھی تک جو کچھ ہوا ہے وہ حکومتی سطح پر ہوا ہے۔ جب تمام معاملات جماعت کی سطح پر آئیں گے تو ہر جماعت اپنی استعداد اور مہارت کے لحاظ سے اس میں اپنا کردار ادا کرے گی۔