لال مسجد کی ’قیدی‘ کا والدین کے ہمراہ جانے سے انکار

جمعہ 16 جنوری 2015 20:40

لال مسجد کی ’قیدی‘ کا والدین کے ہمراہ جانے سے انکار

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔16جنوری۔2015ء)لال مسجد میں قائم خواتین کے مدرسے جامعہ حفصہ میں مبینہ طور پر 'قید' 26 سالہ عظمیٰ قیوم نے اپنے خاندان کے ہمراہ جانے سے انکار کردیا ہے۔عظمیٰ کے خاندان نے الزام لگایا تھا کہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبد العزیز کی اہلیہ ام حسن نے ان کی بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف جامعہ حفصہ میں زبردستی قید کر رکھا ہے۔

جمعرات کو عدالت میں پیشی کے موقع پر عظمیٰ کے ہمراہ جامعہ حفصہ کی سربراہ ام حسن اور مدرسے کے دیگر مرد و خواتین بھی موجود تھے۔اس طرح عدالت کی مداخلت سے عظمیٰ کے والد شیخ محمد قیوم آخرکار سات ماہ بعد اپنی بیٹی سے ملنے میں کامیاب ہوگئے۔اس موقع پر نہایت جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے اور عدالتی حکام کی جانب سے عظمیٰ کو اپنے گھر واپس جانے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی گئی، تاہم وہ اسے قائل نہ کر سکے۔

(جاری ہے)

عظمیٰ کے والد شیخ محمد قیوم نے الزام لگایا تھا کہ لال مسجد انتظامیہ نے ان کی بیٹی کی 'برین واشنگ' کر رکھی ہے۔قیوم کے وکیل حیدر امتیاز نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ اگرچہ عظمیٰ عدالت کے سامنے پیش ہوئی تاہم اس کے ہمراہ جامعہ حفصہ کے متعدد افراد بھی تھے، یہی وجہ ہے کہ اسے 20 جنوری کو دوبارہ طلب کیا گیا ہے۔عظمیٰ کے والد قیوم نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جج نے ام حسن اور ان کے ساتھیوں کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کا حکم دیا۔

'جج نے کمرہ عدالت میں عدالتی اسٹاف کی موجودگی میں عظمیٰ سے آدھے گھنٹے بات چیت کی، جس کے بعد انھوں نے اس کی والدہ کو اند بلایا اور پندرہ منٹ بعد مجھے بھی بلوا لیا گیا'۔'جیسا کہ ہم کئی ماہ بعد اپنی بیٹی سے مل رہے تھے، یہ ہمارے لیے ایک بہت جذباتی موقع تھا اور ہر ایک کی آنکھوں میں آنسو تھے'۔ملاقا ت کے دوران جج اور عدالتی اسٹاف نے عظمیٰ پر اپنے خاندان کے ہمراہ جانے پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ والدین کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا اور اسلام میں بھی والدین کی خواہشات کا خیال رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔قیوم نے بتایا کہ انھوں نے بھی عظمیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن سب بیکار گیا۔ 'ایسا لگتا ہے کہ ام حسن نے میری بیٹی کی برین واشنگ کردی ہے۔ جج نے عظمیٰ کو دار الامان یا کسی رشتے دار کے گھر بھیجنے کی بھی پیشکش کی، لیکن اس نے انکار کردیا۔

عظمیٰ نے صرف اسی بات پر اصرار کیا کہ وہ جامعہ حفصہ واپس جانا چاہتی ہے'۔جس کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ عظمیٰ کا بیان 20 جنوری کو ریکارڈ کیا جائے گا، جبکہ ا س کے والد کا کہنا ہے کہ وہ اسے دوبارہ راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔انھوں نے الزام لگایا کہ سماعت کے دوران ام حسن مسلسل فون پر کسی سے رابطے میں تھیں۔اس سے قبل بدھ کو ام حسن نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا تھا کہ جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران عظمیٰ کے ساتھ جامعہ حفصہ کا کوئی فرد نہیں جائے گا اور اگر وہ اپنے خاندان کے ساتھ واپس جانا چاہے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

یاد رہے کہ 29 دسمبر 2014 کو شیخ محمد قیوم کی جانب سے ہیومن رائٹس سیل کے ہمراہ جامعہ حفصہ سے اپنی بیٹی کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔قیوم کا کہنا تھا کہ ان کی 26 سالہ بیٹی عظمیٰ نے مذہبی تعلیم کا چار سالہ کورس کیا اور اپنی گریجویشن کے بعد ایک رات اچانک گھر چھوڑ دیا۔جس کے بعد ام حسن کی جانب سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انھیں اطلاع دی گئی کہ ان کی بیٹی کو جامعہ حفصہ میں رہائش فراہم کی جا رہی ہے۔

درخواست میں قیوم کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ان کی بیٹی کو لال مسجد میں قائم جامعہ حفصہ میں قید کیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری بیٹی گھر واپس آنا چاہتی ہے، لیکن ام حسن مجھے اپنی بیٹی سے اکیلے میں ملنے تک نہیں دیتیں۔دوسری جانب ام حسن نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'عظمی 26 سال کی ہے اور پاکستان اور اسلام کے قوانین کی رو سے اپنے فیصلے میں خود مختار ہے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے'۔

سپریم کورٹ نے سیشن جج نذیر احمد گجانہ کو اس معاملے کی تفتیش کر کے رواں ہفتے بدھ تک رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا، جبکہ اسلام آباد پولیس کو حکم دیا گیا تھا کہ عظمیٰ کو جمعرات کو عدالت میں پیش کیا جائے۔