انڈین گانوں میں فحاشی پر جاوید اختر برہم

جمعرات 22 جنوری 2015 13:23

انڈین گانوں میں فحاشی پر جاوید اختر برہم

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 22 جنوری 2015ء) ہندوستان کے نامور شاعر اور فلمی گیت لکھنے والے جاوید اختر نے نئی فلموں کے گانوں میں فحاشی پر شدید تنقید کرتے ہوئے جے پور لٹریچر فیسٹول پر زور دیا کہ وہ اس معاملہ کو شدت کے ساتھ اٹھائے۔آج کے زمانے میں بے حد فحاشی ہے۔ جب آپ کسی چیز کے غیر قانونی ہونے پر احتجاج کر سکتے ہیں تو فحاشی کے خلاف ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟پریس ٹرسٹ آف انڈیاکی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جاوید اختر نے فیسٹول کے ایک سیشن 'گاتا جائے بنجارا: فلمی گانے، اردو، ہندی ، ہندوستانی میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ گانوں کے بول میں آنے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کل کے گانوں میں اچھائی کا عنصر موجود نہیں، اور یہی عنصر دہائیوں تک صدا بہار رہنے والے گیتوں کی ایک وجہ ہے۔

(جاری ہے)

جاوید نے انڈین فلمی صنعت کا پاکستان سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں غزل اور دوسری ثقافتی موسیقی مسلسل فروغ پا رہی ہے۔لفظ کسی بھی گانے کی جان ہوتے ہیں اور یہی حتمی بات ہے۔ صرف اچھے لکھے ہوئے گانے ہی یاد رہتے ہیں ۔ماضی میں ایک عام آدمی موسیقی اور گانوں سے زندگی کا فلسفہ سیکھتا تھا۔ پہلے سمجھ بوجھ والے گانے ہوتے تھے۔ ان میں سماجی انصاف اور انسانی اقدار کا عنصر ہوتا ہے لیکن اب یہ عنصر کہیں کھو گیا ہے اور بہت افسوس کی بات ہے کہ کوئی اس حوالے سے سوچتا نہیں۔

جاوید نے سیشن میں موجود حاضرین پر زور دیا کہ وہ فحاشی کے خلاف آواز اٹھائیں۔انہوں نے 1993 کی بولی وڈ فلم ”کھل نائک“ کے مشہور گانے 'چولی کے پیچھے کیا ہے' اور دوسرے گانوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ بے حد دباوٴ کے باوجود کبھی بھی ایسے بول نہیں لکھ سکتے۔آج کل کے گانوں میں کردار اور صورتحال میں کوئی جذباتی گہرائی نہیں لہذا اب اگر شاعر کوشش بھی کرے تو اچھے اور جذباتی بولوں کی گنجائش نہیں بچی ۔

آج جارحانہ مارکیٹنگ اور بھڑکیلی وڈیو کی وجہ سے گانا سنا نہیں بلکہ دیکھا جاتا ہے۔انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آج کی فلموں میں آئٹم گانے ترجیح بن چکے ہیں اور روایتی گانے زوال پذیر ہیں۔جاوید کے مطابق: فلم بینوں اور جارحانہ مارکیٹنگ کی وجہ سے گانا مشہور ہو جاتا ہے۔ مارکیٹنگ والے ہمیں ایسے گانے لکھنے کو کہتے ہیں جو عوام کو پسند آئیں۔ لیکن اگر لوگ ایسے گانوں کو مسترد کر دیں تو وہ اچھے گانے بنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔'انڈیا میں ٹیلنٹ کا کوئی قحط نہیں۔ تاہم، ادب، شاعری، فن اور ثقافتی موسیقی لوگوں کی ترجیح نہیں رہی