سینٹ کی خزانہ ، پانی وبجلی اور پٹرولیم کی قائمہ کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ، اسحاق ڈار،خواجہ آصف کی عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار،

اراکین کا احتجاجاً علامتی واک آؤٹ ،کمیٹی نے حکام کی جانب سے دیئے گئے جوابات کو غیر تسلی بخش قراریدیا سوالات اور حکومت کے نمائندوں کی طرف سے دیئے گئے جوابات کا جائزہ لیکر رپورٹ بنائی جائیگی ، چیئرمین سینیٹ کو پیش کی جائیگی ، بحران کی وجہ تیل کی طلب میں غیر معمولی اضافہ تھا، بحران میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے ،میڈیا مثبت صحافت کا ثبوت ادا کرے ،شاہد خاقان عباسی ، ہمارا کام تیل کا ذخیرہ کرنا نہیں ، کمپنیوں کی ذخیرہ کپیسٹی برقرار رکھوانا ہے،چیئر مین اوگرا

جمعہ 23 جنوری 2015 21:52

سینٹ کی خزانہ ، پانی وبجلی اور پٹرولیم کی قائمہ کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔23جنوری۔2015ء) سینٹ کی خزانہ  پانی وبجلی اور پٹرولیم کی قائمہ کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈاراور وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف کی عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اراکین نے احتجاجاً علامتی واک آؤٹ کیا کمیٹی نے حکام کی جانب سے دیئے گئے جوابات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوالات اور حکومت کے نمائندوں کی طرف سے دیئے گئے جوابات کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ بنائی جائیگی جو چیئرمین سینیٹ کو پیش کی جائیگی جبکہ وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ بحران کی وجہ تیل کی طلب میں غیر معمولی اضافہ تھا، حران میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے میڈیا مثبت صحافت کا ثبوت ادا کرے ۔

(جاری ہے)

چیئرمین سینیٹ سید نیئر حسین بخاری کی ہدایت پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں برائے خزانہ و معاشی امور ، پانی و بجلی اور پیٹرولیم و قدرتی وسائل کا مشترکہ ہنگامی اجلاس جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین کمیٹیز سینیٹر نسرین جلیل، محمد یوسف اور زاہدخان کی زیر صدار ت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔ ہنگامی مشترکہ اجلاس کا مقصد ملک میں جاری پیٹرول کے بحران کی وجوہات تلاش کرنا اور ذمہ دراوں کا تعین کرنا تھا ہنگامی مشترکہ اجلاس میں وفاقی وزیر برائے خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کی عدم شرکت پر اراکین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہا ر کرتے ہوئے احتجاجاً واک آؤٹ کیا اور کہا کہ آج سینیٹ کا انتہائی فورم منعقد کیاگیا تھا جس میں ملک میں جاری پیٹرول کے بحران کی صورتحال اور وجوہات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لینا تھا مگر متعلقہ وزراء کی عدم شرکت اس بحران کے حل میں عدم دلچسپی کا عکاس دیکھاتی ہے وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے قائمہ کمیٹی کو ملک میں پیٹرول کے بحران کی صورتحال بارے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک میں تاریخ میں نایاب اجلاس ہے جو ملک میں ہونے والے پیڑول کے بحران کے لئے بلایا گیا وزیراعظم پاکستان نے بھی اس بحران کا شدید نوٹس لیتے ہوئے پانچ اعلیٰ افسران کو معطل کر دیا تھا اس بحران کی بنیادی وجہ پیٹرول کی طلب میں غیر معمولی اضافہ تھا جس کی مثال ماضی میں کبھی نہیں ملی اوگرا کے قانون کے مطابق آئل مارکینٹنگ کمپنیوں کے پاس 20 دن کا آئل کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے یکم جنوری 2015 کو ایک جہاز سے 50 ہزار میٹرک ٹن آئل پاکستان لایاگیا مگر بد قسمتی سے دو کارگو کے جہاز جن پر تیل آرہاتھا وہ لیٹ ہوگئے اور پاک ریفانری کی میشنیں پانچ دن کیلئے خراب ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے بھی بحران میں اضافہ ہوا انہوں نے کہا کہ ملک میں اوسطً12300 میٹرک ٹن تیل استعمال ہوتا ہے مگر جنوری میں تیل کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے اور سی این جی پر پابندی کی وجہ سے پیڑول کی طلب میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا جس ک وجہ سے بحران شدت اختیار کرتا گیا کمپنیوں کے اس بحران کو حل کرنے میں مدد بھی کی اور اب بحران پر قابو پا لیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ پی ایس اور سے پیٹرول کا بڑا خریدار پانی و بجلی ہے اور سرکل ڈیٹ کا مسئلہ بھی جاری ہے جس کو براہ راست اثر پی ایس او پر پڑتا ہے پی ایس او ر1600 ارب روپے کا کاروبار کرتا ہے فرنس آئل کو دوسرے طریقے سے ڈیل کیا جاتا ہے اُس کا اس بحران سے کوئی واسطہ نہیں ہے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمارے ملک کا میڈیا مثبت صحافت کا ثبوت ادا کرے بحران میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے کراچی میں پیٹرول بحران کا کوئی مسئلہ نہیں تھا 30 دن کا پیڑول کا ذخیرہ محفوظ تھا ایک شخص کے غلط بیان نے پورے شہرکو پریشان کر دیا انہوں نے کہا کہ کراچی میں آٹھ لاکھ لیٹر پیڑول یومیہ فروخت ہوتا ہے اور اس بیا ن کی وجہ سے کراچی میں تین دن میں تیل کی سیل 10 الاکھ یومیہ لیٹر سے بھی تجاوز کر گئی تھی ۔

رکن کمیٹی سینیٹر نواب زادہ سیف اللہ مگسی نے کہا کہ جس پیڑول کی قیمتیں کم ہو رہی تھیں اور سی این جی بھی بند تھی تو طلب میں اضافہ ضرور ہوناتھا کیا متعلقہ اداروں کے پاس کوئی ایسی پالیی نہ تھی جو ان چیزوں کا انداز لگا سکتا رکن کمیٹی عثمان سیف اللہ نے کہا کہ جن لوگوں کو وزیر اعظم نے معطل کیا ہے اُن کے خلاف کیا الزامات لگائے گئے تھے مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ اگر ملک میں بحران نہیں تو میڈیا پر جو دیکھا جا رہا ہے و ہ غلط بھی نہیں ہے اگر بحران نہ ہوتا تو وفاقی وزار معافیاں کیوں مانگے افسران کو بغیر انکوائر ی نکلا دیا گیا وفاقی وزیر کے خلاف انکوائر ی کیوں نہیں کی گئی روبینہ عرفان نے کہا کہ اراکین کمیٹیوں نے جو سوالات کیے ہیں اُن کے جوابات غیر تسلی بخش اور غیر متعلقہ ہیں سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ملک میں بے شمار بحران آئے ہیں چینی ،ادرک ، آلو ، پیاز ، اور آٹا کے بحران عوام نے جھیلے ہیں ذمہ داروں کا تعین کیوں نہیں کیا جاتا ملک میں پیٹرول موجودتھا مگر پنجاب کو نہیں دیا گیا ملک میں مافیا کام کر رہے ہیں جو بحران پیدا کر کے ناجائزہ فائدہ اُٹھاتے ہیں سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ بحران سے پہلے حکومت نے کتنی ادائیگی کی اور کتنا پٹرول کا ذخیرہ موجود تھا سینیٹر صغریٰ امام نے کہا کہ ان تینوں وزارتوں سے طلب و رسد کنٹرول نہ ہو سکی جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوا اور ایک لیٹر پیڑول تین سو روپے میں فروخت ہوا جن لوگوں نے اس بحران سے فائدہ اُٹھایا اُن کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صابر علی بلوچ نے کہا کہ رویو کمیٹی نے بحران میں کیا کردار ادا کیا تھا اور اوگرا نے کتنے لائسنس جاری کیے تھے جس پر چیئرمین اوگرا نے کہا کہ ہم حکومت کی ہدایت و قواعد و ضوابط کے مطابق لائسنس جاری کرتے ہیں اوگرا نے د ولائسنس جاری کیے ہیں 11 لائسنس وزارت کی طرف سے ہمیں بھیجے گئے تھے اور 7 نئی آئل مارکٹنگ کمپنیوں کو لائسنس دینے پر غور کیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ ہمارا کام تیل کا ذخیرہ کرنا نہیں بلکہ کمپنیوں کی ذخیرہ کپیسٹی برقرار رکھوانا ہے او ایم سی 20 دن کا ذخیرہ اپنے پاس رکھتی ہیں 2014 کو ہم نے 82 کمپنیوں کو چیک کیا اور جن کے پاس کمی تھی اُن کو جرمانے بھی کیے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ خاص فارمولے کے تحت آئل کی قیمت متعین کی جاتی ہے سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ تمام اراکین کمیٹی کے سوالات اور حکومت کے نمائندوں کی طرف سے دیئے گئے جوابات کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ بنائی جائے گی جو چیئرمین سینیٹ کو پیش کی جائے گی ۔