اناپرستی شیطانی صفت ہے جو قوموں کے درمیان اتحادویکجہتی اورنظم وضبط کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے، الطاف حسین،

اناپرستی کی سوچ اورطرزعمل نہ صرف گھروں کوتباہ کردیتاہے بلکہ ملکوں اور قوموں کی تباہی وبربادی کا سبب بھی بنتا ہے، قائدتحریک الطاف حسین کا ایم کیوایم کے تنظیمی ذمہ داروں کو ” انا پرستی “ کے موضوع پر تفصیلی لیکچر

جمعہ 23 جنوری 2015 23:14

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔23جنوری۔2015ء) متحدہ قومی موومنٹ کے قائدالطاف حسین نے کہاہے کہ اناپرستی شیطانی صفت ہے جونہ صرف دوافرادکے ملاپ کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ قوموں کے درمیان اتحادویکجہتی اورنظم وضبط کی راہ میں بھی رکاوٹ ہوتی ہے ،اناپرستی ہی ملکوں اورقوموں کی تباہی وبربادی کا سبب بھی بنتی ہے ۔ انہوں نے یہ بات لال قلعہ گراوٴنڈعزیزآبادمیں ایم کیوایم کے تنظیمی ذمہ داروں کو ” انا پرستی “ کے موضوع پر دیئے گئے ایک تفصیلی لیکچر میں کہی۔

لیکچرمیں اراکین رابطہ کمیٹی ، سینیٹرز، ارکان قومی وصوبائی اسمبلی، تنظیمی شعبہ جات ، سندھ بھرکے تمام زونوں اورکراچی کے سیکٹرانچارجزاورزونل وسیکٹرزکمیٹیوں کے ارکان نے شرکت کی ۔ اپنے تفصیلی اورفکرانگیز لیکچرمیں الطاف حسین نے اناپرستی کے مختلف پہلووٴں پرروشنی ڈالی۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ساتھ اناپرستی کے انسانی زندگی اورمعاشرے پر اجتماعی طورپر پڑنے والے منفی اثرات، تحریکوں کے نظم وضبط اورکامیابی کیلئے اناپرستی کے خاتمہ اور غوروفکر کی اہمیت پرتفصیلی اظہارخیال کیا۔

الطاف حسین نے غوروفکرکی اہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ غوروفکراورسوچ وبچارکاعمل ذہن کے سوئے ہوئے خلیوں کوبیدارکرنے اوران پرلگے ہوئے تالوں کو کھولنے کیلئے چابی کاکام دیتاہے ۔جاننے ، تلاش کرنے اورکھوجنے کی جستجوانسانی فطرت کاحصہ ہے ۔تلاش ،جستجواورغوروفکرکی بدولت ہی انسان کائنات میں چھپی ہوئی چیزوں کو تسخیرکرتاہے اورترقی کی معراج کوپاتاہے۔

الطاف حسین نے کہاکہ سرکاردوعالم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ قرآن مجید کی آیت ” اقراء باسم ربک الذی خلق “ ہے جس کاترجمہ ہے، ” پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تجھے پیداکیا ‘ ‘۔ اس آیت کے پہلے لفظ ” اقراء “ کے لغوی معنی اگرچہ ” پڑھ “ کے ہیں لیکن اس کامفہوم یہ ہے کہ جانو، سیکھو، تلاش کرو،غوروفکرکرو۔اقراء کے اس لفظ میں دعوت خداوندی یہ ہے کہ چاہے تم نے جتنابھی پڑھا ہولیکن پھربھی پڑھو اوراپنے آپ کومکمل نہ سمجھو ۔

علم اورسیکھنے کی کوئی حدنہیں اورجویہ سمجھتاہے کہ اس کاعلم مکمل ہوگیاتووہ سمجھتاہے کہ” بس میں ہی میں ہوں“ اور جہاں انسان کی سوچ میں ” میں ہی میں “ آجاتی ہے تو وہ ” انا “ میں مبتلاہوجاتا ہے۔لہٰذا اگرغورکیاجائے توپہلی وحی کے پہلے لفظ ” اقراء “ کادرس ہی دراصل انا کی نفی ہے۔ الطاف حسین نے کہاکہ ابلیس اللہ تعالیٰ کے سب سے قریب اورسب سے زیادہ عبادت گزارتھالیکن جب اللہ نے آدم کوتخلیق کیااور تمام ملائکہ اورفرشتوں کواسے سجدہ کرنے کاحکم دیاتو تمام ملائکہ اورفرشتوں نے آدم کوسجدہ کیالیکن ابلیس نے یہ کہہ کرسجدہ کرنے سے انکار کردیا کہ میں آگ سے بناہوں لہٰذامیں مٹی سے بنے ہوئے اس پتلے کوسجدہ نہیں کرسکتا۔

ابلیس کاآدم کوسجدہ کرنے سے انکارغروراوراناپرستی کاعمل تھا۔ اناپرستی کے اس عمل کے نتیجے میں وہ ابلیس سے شیطان بن گیااوررہتی دنیاتک کے لئے خداکی لعنت اورذلت کاحقدارٹھہرا۔ انہوں نے کہاکہ اناصرف خداتعالیٰ کوزیب دیتی ہے اورکوئی بھی انسان یااس کی مخلوق میں سے کوئی بھی اگر انانیت کرے گاتووہ اپنے آپ کو خداکی خدائی میں شامل کرنے کی کوشش کرے گا۔

اور جو خدا کی خدائی میں خود کو شامل کرنے کی کوشش کرے گاوہ شرک کامرتکب ہوگااورشرک سے بڑاکوئی گناہ نہیں۔ الطاف حسین نے کہاکہ انا اتنی بری چیزہے کہ وہ شیطانی فطرت قرارپائی اور شیطانیت ضدہے رحمانیت کی ۔ لہٰذا جہاں اناہوگی وہاں شیطان ہوگا، شیطانیت ہوگی اور جہاں شیطانیت ہووہاں رحمانیت نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ جو فرد بھی انانیت کاشکارہوگاوہ شیطانیت کامرتکب ہوگااورجوشیطانیت کامرتکب ہووہ رحمانیت سے دور ہوگا۔

الطاف حسین نے کہا کہ انا دوستوں کوقریب آنے سے روکتی ہے ،میل ملاپ اوردوستی کودشمنی میں بدل دیتی ہے۔انا محبت میں فاصلے پیداکرتی ہے ، محبت کو توڑدیتی ہے ۔اناپرستی میاں بیوی کے درمیان ازدواجی رشتہ میں دراڑپیداکرتی ہے اوران میں لڑائی اورپھرعلیحدگی کاسبب بنتی ہے۔اناپرستی نہ صرف افراد کے ملاپ کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ قوموں کے درمیان ٹھوس اتحادویکجہتی کی راہ میں بھی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے ۔

اناپرستی کی سوچ اورطرزعمل نہ صرف گھروں کوتباہ کردیتاہے بلکہ ملکوں اور قوموں کی تباہی وبربادی کا سبب بھی بنتا ہے ۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہاکہ سابقہ مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کے بارے میں مغربی پاکستان کے لوگوں نے اجتماعی غرورواناپرستی میں مبتلاہوکریہ کہاکہ بنگالی دبلے پتلے اور چارفٹ کے ہیں،یہ وطن کی کیاحفاظت کریں گے ، ہمارے قد سات آٹھ فٹ کے ہیں لہٰذا پولیس، فوج اورتمام عسکری اداروں میں صرف ہماراحق ہے ،جب بنگالیوں نے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد شروع کی توکہاگیاکہ یہ دبلے پتلے چارفٹ کے بنگالی ہماراکچھ نہیں بگاڑسکتے ۔

اس اجتماعی غروراوراناپرستی نے ملک کودولخت کردیااوروہ بنگالی جنہیں حقارت کے ساتھ کمزور اور چارفٹ کاکہاجاتاتھاآج ان کاملک پاکستان سے معاشی طورپرمستحکم ہے۔ الطاف حسین نے کہاکہ ملک کے نظام کوبدلنے اور عوام کے اجتماعی حقوق کے حصول کیلئے وجودمیں آنے والی تحریک یاتنظیم کے مثالی نظم وضبط اور اس کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس تحریک میں شامل افراد اپنی ذاتی اناکوفناکردیں،وہ ذاتی انا کے خول میں بندنہ ہوں کیونکہ ذاتی اناکاخول انہیں اجتماعیت کے دائرے میں آنے اور آپس میں متحدہونے سے روکتاہے ۔

اسی لئے میں نے تحریک کے ابتدائی ایام سے ہی کارکنوں کویہ درس دیاکہ اگروہ اجتماعی بقاء چاہتے ہیں تو اپنی اناکوفناکردیں اور ذاتی اناکے خول سے باہرآکرتحریک کے اجتماعی مشن ومقصد کے حصول کیلئے بے لوث ہوکر جدوجہد کریں ۔ الطاف حسین نے کہاکہ اناپرستی میں مبتلاہونے کے امکانات عموماً وہیں زیادہ ہوتے ہیں جہاں زیادہ علم ہوتاہے، جہاں انسان کسی بڑے مقام،مرتبے یاعہدے پر فائزہوتاہے یاجہاں انسان زیادہ کام کرنے والاہوتاہے۔

مگرجوانسان زیادہ علم رکھنے اورکسی بڑے مقام یامرتبے یاعہدے پرفائزہونے اور زیادہ کام کرنے کے باوجوداناپرستی اورغروروگھمنڈمیں مبتلانہیں ہوتابلکہ عجزوانکساری کامظاہرہ کرتاہے وہ شیطانیت سے نکل کررحمانیت کے دائرے میں آجاتا ہے ۔ الطاف حسین نے کہاکہ جب انسان کسی بڑے مقام یامرتبہ پرپہنچ جاتاہے توعموماًوہ اپنے ماضی اوراپنی اوقات کوبھول جاتاہے اور اناپرستی میں مبتلاہوکر دوسروں کو کم تراورحقیرسمجھنے لگتاہے اوریہ بھول جاتاہے کہ وہ ماضی میں خودکس حال میں تھا۔

خودکو افضل وبرتر اوردوسروں کوحقیرسمجھنے کی یہ سوچ نہ صرف افراد میں تفریق پیداکرتی ہے بلکہ معاشرے میں طبقاتی فرق کوبھی جنم دیتی ہے ۔اگرکسی تحریک میں شامل افرادکے درمیان اس قسم کی سوچ پیداہوجائے تواس تحریک میں بھی طبقات پیداہوجاتے ہیں اورجوتحریک خودطبقات میں بٹ جائے وہ تباہ ہوجاتی ہے۔ الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی کے ارکان سمیت تحریک کے تمام ذمہ داروں، حق پرست سینیٹرز اور ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کوتلقین کرتے ہوئے کہاکہ آج وہ جس مقام پر بھی ہیں اورجس منصب پر بھی فائز ہیں،اس پر فائزرہتے ہوئے یہ نہ بھولیں کہ ان کاماضی کیاتھا، وہ معاشی طورپرکس حال میں تھے اورتحریک کی بدولت وہ آج کہاں پہنچ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جولوگ اپنے ماضی کونہیں بھولتے اورجن کے پاوٴں زمین پررہتے ہیں وہ کسی بھی اعلیٰ مقام پر پہنچنے کے باوجوداناپرستی اورغروروگھمنڈ میں مبتلانہیں ہوتے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں شیطانیت کے دائرے سے نکل کررحمانیت کے دائرے میں آنے کے لئے اپنے اندرانانیت کے شیطان صفت جراثیم تلاش کرکے ان جراثیم کاخاتمہ کرناچاہیے اور اپنی اصلاح کے لئے اپنے آپ کوخوداحتسابی کے عمل سے گزارتے رہنا چاہیے ۔