سائنس دانوں نے روشنی کی رفتار سست کر دی

ہفتہ 24 جنوری 2015 12:24

سائنس دانوں نے روشنی کی رفتار سست کر دی

لندن (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24 جنوری 2015ء )سکاٹ لینڈ کے سائنس دانوں نے روشنی کو اس کی اصل رفتار سے سست کر دکھایا ہے۔انھوں نے روشنی کے ذرات فوٹان ایک خصوصی ماسک کے ذریعے ارسال کیے، جس سے ان فوٹانز کی شکل تبدیل ہو گئی، اور وہ روشنی کی اصل رفتار سے سست پڑ گئے۔جب ان ذرات کو ماسک سے ہٹا کر عام فضا میں بھیجا گیا تب بھی وہ روشنی کی رفتار سے سست سفر کر رہے تھے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ تجربہ روشنی کے بارے میں سائنس دانوں کے تصورات بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔گلاسگو اور ہیریئٹ واٹ یورنیوسٹیوں کے سائنس دانوں کی یہ تحقیق جریدے سائنس ایکسپریس میں شائع ہوئی ہے۔خلا میں روشنی کی رفتار 186,282 میل فی سیکنڈ یا تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے اور اسے سائنسی مطلق اکائی مانا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

روشنی پانی یا شیشے جیسے دوسرے شفاف مادوں میں سے گزرتے ہوئے تھوڑی سست ہو جاتی ہے، لیکن آزاد فضا میں آ کر یہ دوبارہ اپنی اصل رفتار اختیار کر لیتی ہے۔

تاہم حالیہ تجربے نے یہ تصور بدل کر رکھ دیا ہے۔روشنی کی رفتار کو سست کرنا محض ایک سائنسی تجربہ ہی نہیں بلکہ اس کے عملی استعمالات بھی ہیں۔سائنس دانوں نے فوٹانز کے لیے ایک خصوصی ریس ٹریک بنایا۔ جس میں انھوں نے فوٹانز کو جوڑوں میں سفر کروایا۔ ایک فوٹان کو ویسے ہی رہنے دیا گیا جب کہ دوسرے کو ایک خصوصی ماسک کے ذریعے بھیجا گیا۔ماسک نے فوٹانز کی شکل بدل دی، اور وہ روشنی کی رفتار سے سست رفتار پر سفر کرنے لگے۔

سائنس دان ڈاکٹر رومیرو نے کہا: ’ماسک کے بعد فوٹان ایک میٹر لمبے ریس ٹریک سے گزارے گئے۔ پھر ہم نے وہ وقت ناپا جس میں عام فوٹان اس ٹریک سے گزرے تھے، اور پھر ان کا تقابل کیا گیا۔اگر دونوں ایک ساتھ ٹریک سے نکل آتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ دونوں کی رفتار ایک جیسی ہے۔ لیکن تبدیل شدہ فوٹان اس دوڑ میں دوسرے نمبر پر آئے۔‘تاہم یہ فرق کچھ زیادہ نہیں تھا، یعنی ایک ملی میٹر کے کئی لاکھویں حصے کے برابر۔

تاہم اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف تبدیل شدہ فوٹان ماسک کے اندر سست پڑ جاتے ہیں بلکہ اس سے باہر نکلنے کے بعد بھی سست ہی رہتے ہیں۔روشنی کی رفتار کو سست کرنا محض ایک سائنسی تجربہ ہی نہیں بلکہ اس کے عملی استعمالات بھی ہیں۔ روشنی کو بعض انتہائی حساس پیمائشوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے یہ ناپنا کہ چاند زمین سے کتنی دور ہے۔اگرچہ اس طرح کی بڑی پیمائشوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، لیکن سائنس دانوں کو چھوٹی پیمائشوں کے لیے روشنی کو استعمال کرتے وقت فوٹان کی شکل کو بھی ذہن میں رکھنا پڑے گا