اوباما کا دورہ بھارت محض فوٹو سیشن بننے جا رہا ہے!

بھارت تحریک طالبان پاکستان سے دوری اختیار کرے: امریکی انتباہ

ہفتہ 24 جنوری 2015 17:05

ددبئی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24 جنوری 2015ء) امریکی صدر براک اوباما کا دورہ بھارت جوں جوں قریب آ رہا ہے، امریکا-بھارت تعلقات میں جھلکنے والے اتار چڑھاوٴ سے نظر آنے لگا ہے کہ اس دورے سے بھارتی وزیر اعظم نریبدر مودی کو تو شاید کچھ فائدہ ہو جائے لیکن بھارت کے لیے زیادہ مفید نہیں ہو سکے گا۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کی بھارت آمد سے پہلے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس سلسلے میں بھارتی نیتاوں کو باضابطہ انداز میں خبردار بھی کر دیا ہے کہ بھارت، تحریک طالبان پاکستان اور اس طرح کے دوسرے عسکری گروپوں کے ساتھ روابط رکھتے ہوئے اور انہیں پالنے پوسنے کی حکمت عملی جاری رکھ کر امریکا سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کرے۔

اوباما آج بھارت پہنچ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق جان کیری کے حالیہ دورہ بھارت کے موقع پر بھارتی نیتاوں کو اس وقت سخت کوفت اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا، جب نریندر مودی نے پاکستان کے ارمی پبلک سکول میں ہونے والی دہشت گردی پر مگر مچھ کے آنسووں کی طرح دکھ کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس سانحہ ان کے لیے اچانک صدمے کی طرح تھا۔لیکن جان کیری اور ان کی ٹیم نے موقع پر ہی نریندر مودی کے سامنے وہ شواہد رکھ دیے جو اس سانحے سے محض چند روز پہلے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندون کے ساتھ بھارتی سکیورٹی حکام کے رابطوں کے حوالے سے تھے۔

تاہم بھارتی قیادت نے سامنے پڑے شواہد کے باوجود ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے روابط کی تردیدی کی تو ماحول میں خفگی اور تناوٴ کی سی فضا پیدا ہو گئی۔ اگرچہ یہ ملاقات بڑے سبھاوٴ کے ساتھ خواشگوار ماحول میں شروع ہوئی تھی۔ذرائع کے مطابق اس موقع پر بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار دووال کا ملا فضل اللہ کے ساتھ بالواسط روابط رکھنے کے حوالے سے کردار زیر بحث آیا کہ افغانستان میں اپنے قونصل خانوں اور بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے ذریعے وہ کس طرح موٴثر کردار ادا کر رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ کی قیادت میں ملاقات کرنے والی اس ٹیم نے نہ صرف یہ کہ نریندر مودی کو فضل اللہ کے ساتھ بھارتی روابط کے فوری خاتمے لے لیے کہا بلکہ امریکی صدر کی بھارت آمد سے پہلے ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا، تاکہ امریکی صدر کا دورہ با معنی ہو سکے۔امریکی ٹیم نے باور کرایا کہ امریکا ٹی ٹی پی کو دہشت گرد قرار دینے والا ہے۔ اس لیے بھارت نے اس سے اپنے تعلقات ختم نہ کیے تو اوباما کا دورہ بھارت عملا ایک فوٹو سیشن بن کر رہ جائے گا۔

واضح رہے اس سے پہلے سابق امریکی وزیر دفاع چک ہیگل بھی اس امر کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ بھارت، افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔دوسری جانب پاکستان کی سلامتی سے متعلق قیادت بھی ان دنوں دہشت گردی کے حوالے سے بھارتی کردار پر عالمی رہنماوں سے بات کر رہی ہے۔ نیز لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر بھارتی خلاف ورزیاں اور فائرنگ بھی پاکستانی قائدین کی غیر ملکی رہنماوں سے ملاقات میں اہم موضوع ہیں۔بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار دووال نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحانہ دفاع کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔