اوباما کا بھارت جانا، پاکستان نہ آنا حساس فیصلہ تھا امریکی صدر کو نواز شریف کو فون کر کے وضاحت کر نا پڑی امریکی اخبار

امریکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر دیکھنا چاہتا ہے، مذاکرات کی ہمیشہ سے حمایت کرتا رہا ہے ، اوباما کا دورے کا مقصد نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان بڑھتی قربتوں کی نمائش ہے  وال سٹریٹ جرنل

اتوار 25 جنوری 2015 14:11

اوباما کا بھارت جانا، پاکستان نہ آنا حساس فیصلہ تھا امریکی صدر کو ..

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین ۔ 25جنوری 2015ء) امریکی اخبار” وال اسٹریٹ جرنل“ باراک اوباما کے دورہ بھارت پر اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی اوباما کا بھارت جانے اور پاکستان نہ آنے کا فیصلہ اسلام آباد کیلئے اس قدر حساس تھا کہ اوباما کو نومبر میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو فون کرکے اس وجہ کی وضاحت کرنا پڑی، اوباما نریندر مودی کو بند دروازوں کے پیچھے پیغام دے سکتے ہیں کہ اسلام آباد کے ساتھ اپنے رویے میں لچک پید کریں اور معاندانہ رویہ ختم کرکے مذاکرات شروع کریں، امریکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر دیکھنا چاہتا ہے، امریکہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی ہمیشہ سے حمایت کرتا رہا ہے۔

امریکی اخبار نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا کہ صدر باراک اوبا ما کا دورہ بھارت ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاک بھار ت تعلقات میں کشیدگی عروج پر ہے،حالیہ مہینوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ سے تعلقات خراب ہیں، اوباما کا دورے کا مقصد نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان بڑھتی قربتوں کی نمائش ہے۔

(جاری ہے)

انتظامیہ حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوباما کی طرف سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے دونوں جوہری ہمسایہ ممالک کو معاندانہ رویے میں کمی کر کے بات چیت دوبارہ شروع کرنے جیسے ایشوز اٹھائے جانے کا امکان ہے، وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزربین روڈ نے کہا کہ امریکہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی تسلسل سے حمایت کرتا رہا اور کرتا رہے گا، بھارت اور پاکستان سرحدی خلاف ورزیوں کی ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہے، اکتوبر سے بمباری اور فائرنگ سے دونوں اطراف کے درجنوں شہری اور فوجی جان دے چکے،اس کشیدگی میں اضافہ اس وقت مزید دیکھنے میں جب سرتاج عزیز نے یہ بیان دیا کردیا بھارت جنگ کیلئے خطرناک خواہش رکھتا ہے، وزیر اعظم نواز شریف کے برسراقتدار کے بعد بھارت کے خلاف یہ سب سے زیادہ سخت بیا ن تھا۔

اخبار نے شیری رحمان کے حوالے سے لکھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات پارہ پارہ ہو گئے، ممبئی حملوں کے بعد سے اس سے برے حالات نہیں ہوئے، اوباما کے دورہ بھارت میں عسکریت پسندوں کی طرف سے حملے کے خدشے کے پیش نظر بھارت الرٹ ہے، واشنگٹن کے تھنک ٹینک سٹیمسن سینٹر کے تجزیہ کاریشوع وائٹ کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستا ن آپس میں بات نہیں کررہے جس سے دہشت گردی کے حملوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے، سرحد پر کوئی بھی تصادم کسی بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے،صدر اوباما پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی وزیراعظم مودی کو درخواست کرسکتے ہیں، تاہم میزبان کی ناراضی سے بچنے کے لئے امریکی صدر یہ پیغام غالباً بند دروازوں کے پیچھے دیں گے، سرد جنگ اور ستمبر 2001ء حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی رہا ہے۔

اس لئے بھارت اور امریکہ کی قربتوں کو پاکستان بے چینی سے دیکھ رہا ہے۔ واشنگٹن اور اسلام آباد میں حکام کے مطابق اوباما کا دورہ بھارت اور پاکستان نہ آنے کا فیصلہ اسلام آباد کیلئے اس قدر حساس فیصلہ تھا کہ اوباما نے نومبر میں نواز شریف کو فون کرکے اس وجہ کو بیان کیا۔ وائٹ ہاؤس کے مشیر کا کہنا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی قیمت پر ان تعلقات کو نہیں دیکھتے، ہمارے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہو سکتے ہیں اور ہمارے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہو سکتے ہیں۔بھارتی مبصرین واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات کے بارے کہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے یرغمال نہیں کہ پاکستان میں کیا رونما ہوتا ہے۔